تحریک انصاف کے کارکنوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی نماز جنازہ میں وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف سید عاصم منیر کی شرکت نے تحریک انصاف پر واضح کردیا ہے کہ کسی بھی تخریب کی روک تھام کے لیے ہم ایک پیج پر ہیں۔ تحریک انصاف کی سیاست میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جہاں لیڈر عوام کو اشتعال دلا کر متحرک کرتے ہیں، لیکن جب وقت آتا ہے تو اپنے کارکنوں کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ حالیہ واقعات میں تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان کی ’’فائنل کال‘‘ کے بعد جو کچھ اسلام آباد میں ہوا، اس نے ایک بار پھر قیادت کے کردار اور ذمے داری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ عمران خان نے اپنی تقاریر میں ہمیشہ ایک ایسے پاکستان کا خواب دکھایا ہے جو انصاف، مساوات اور خودمختاری پر مبنی ہو۔ یہی خواب تحریک انصاف کے کارکنوں کو اپنی جان، مال اور عزت دائو پر لگانے کے لیے متحرک کرتا رہا ہے۔ ’’فائنل کال‘‘ کے اعلان کے ساتھ کارکنان اپنے لیڈر کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے اسلام آباد کا رخ کر رہے تھے۔ لیکن یہ کال ایک بار پھر جذبات کو ہوا دینے اور کارکنوں کو قربانی کے لیے استعمال کرنے کا ذریعہ ثابت ہوئی۔ اسلام آباد میں مظاہروں کے دوران املاک کو نقصان پہنچایا گیا، گاڑیوں کو آگ لگائی گئی اور عوامی و نجی اثاثوں کو تباہ کیا گیا۔ یہ مناظر نہ صرف تحریک انصاف کی پالیسیوں پر سوال اٹھاتے ہیں بلکہ معاشرتی اقدار اور قانون کی حکمرانی کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ ایک ایسی تحریک جو ’’انصاف‘‘ کے نعرے پر بنی تھی، وہ خود انتشار اور تشدد کا ذریعہ بن گئی۔ جب مظاہروں کی شدت بڑھی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے تو تحریک انصاف کی قیادت بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور کے ساتھ موقع سے فرار ہو گئی۔
جیل میں قید عمران خان، جنہوں نے کارکنان کو ’’آخری لڑائی‘‘ کے لیے تیار کیا تھا ان کی جماعت کے اپنے لیڈر خود محفوظ مقام پر چلے گئے، اور کارکنان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ایسی صورتحال تحریک انصاف کی سیاست میں کئی بارہا ہوئی ہے کہ لیڈرز خود کو بچانے کے لیے پسپائی اختیار کرتے ہیں، جبکہ کارکنان اپنی جانوں، عزتوں اور آزادی کی قربانی دیتے ہیں۔ ماضی میں اپوزیشن کی کوئی بھی ایسی تحریک دیکھنے میں نہیں آئی، جس میں کارکن باقاعدہ آتشیں اسلحہ سے مسلح ہو کر ہاتھوں میں ڈنڈے اور غلیلیں اٹھائے اور اپنے بیگز میں پتھر اور روڑے بھر کر جلوس میں شامل ہوئے ہوں اور پولیس اہلکاروں پر سیدھے فائر کرتے‘ پٹرول بم پھنکتے‘ لاٹھیاں برساتے اور غلیلوں سے نشانہ باندھ کر سیکورٹی اہلکاروں کو پتھر مارتے نظر آئے ہوں لیکن اس بار تحریک انصاف کے کارکنان نے خاص طور پر ایک ایسے لیڈر کے لیے قربانیاں دیں جس نے بارہا ’’حق اور انصاف‘‘ کی بات کی، لیکن جب آزمائش کا وقت آیا، تو وہ اور اس کی لیڈر شپ کہیں نظر نہیں آئی۔ پی ٹی آئی کے لوگوں نے نقل و حرکت پر عائد پابندیوں کے باوجود جس وحشیانہ انداز میں پولیس اور رینجرز پر پتھرائو اور فائرنگ کرکے دو پولیس کانسٹیبلوں کو شہید اور 120 سے زائد اہلکاروں کو زخمی کیا ہے اور پھر اسلام آباد آنے والی سری نگر شاہراہ پر موجود رینجرز کے دستے پر ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ورکر واجد جنید نے انتہائی تیز رفتاری سے گاڑی چڑھا کر چار رینجرز اہلکاروں کو شہید اور متعدد کو زخمی کر دیا‘ اگر ان لوگوں کو 9 مئی جیسی چھوٹ حاصل ہوتی تو آج ان کے ہاتھوں دارالحکومت کا چپہ چپہ تباہی کی تصویر پیش کررہا ہوتا۔
کارکنان کی گرفتاری، تشدد، اور قانونی مقدمات ان کے لیے ایک تلخ حقیقت بن گئے۔ یہ سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ ایک سیاسی لیڈر کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ کیا وہ صرف عوام کو جذباتی نعروں سے متحرک کرے، یا جب حالات سخت ہو جائیں تو اپنی قیادت کا ثبوت بھی دے؟ بدقسمتی سے، تحریک انصاف کی قیادت نے اس معاملے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا۔ بے شک آئین نے ہر شہری کو اظہار رائے اور نقل و حرکت کی آزادی دی ہے مگر یہ آزادی ریاست کے خلاف تخریب کاری اور دہشت گردی کے لیے تو استعمال نہیں کی جاسکتی۔ اگر کوئی اس آزادی کی آڑ میں ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے تہس نہس کے راستے پر چلتا ہے تو اسی آئین اور دوسرے متعلقہ قوانین نے ریاستی انتظامی اداروں کو بھی ایسے عناصر کو نکیل ڈالنے کا اختیار دیا ہوا ہے۔
اس واقعے نے تحریک انصاف کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جو لوگ عمران خان کے وژن پر یقین رکھتے تھے، وہ اب شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان کی سیاست میں کارکنان ہمیشہ لیڈرز کے مفادات کے لیے ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوتے ہیں۔ لیڈر اپنے نعروں اور بیانیے کے ذریعے عوام کو سڑکوں پر لاتے ہیں، لیکن جب معاملات خراب ہوتے ہیں، تو وہ خود غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ رویہ سیاسی کارکنان کے اعتماد کو کمزور کرتا ہے اور سیاسی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا ہے۔ سیاسی قیادت کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ مشکل وقت میں اپنی قوم اور کارکنوں کے ساتھ کھڑی رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کو ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جہاں لیڈرز اور کارکنان کے درمیان اعتماد اور شفافیت ہو۔ اگر لیڈرز اپنی ذمے داریوں کو نہیں سمجھیں گے اور کارکنوں کو صرف ایندھن کے طور پر استعمال کریں گے، تو عوام کا اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ تحریک انصاف کے حالیہ واقعات نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ صرف نعروں اور وعدوں سے قیادت نہیں کی جا سکتی؛ عمل اور ذمے داری کا مظاہرہ بھی ضروری ہے۔ بہرحال سیکورٹی اداروں، مقامی انتظامیہ، پولیس، رینجر اور آرمی کی بہترین حکمت عملی کی وجہ شر پسندوں کو بغیر گولی چلائے واپس بھاگنے پر مجبور کر دیا، اور یہ بات بھی تواتر سے کر رہے ہیں کہ بشریٰ بی بی نے اپنی کم عقلی کی بنا پر عمران خان اور تحریک انصاف کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی ہے۔