بلکہ سارا ملبہ یہی سیاستدان ایک دوسرے کو مطعون کرنے کے چکر میں سول حکومت اور اہل سیاست پر ڈال دیتے ہیں، بکاو پرنٹ میڈیا ،زیر دباو الیکٹرانک میڈیا اور نو آموز اینکرز سارا وقت ایک دوسرے کے مخالف سیاسی گروہ پر کیچڑ اچھالنے میں لگاتے ہیں اور زوردار طریقے سے فلاں چور ،فلاں یہودی ایجنٹ ،فلاں فوج کا ایجنٹ کے نعرے لگاتے ہیں ، ہر لیڈر کے پیروکار اس کے پیچھے آنکھ بند کرکے چلتے ہیں، اور مخالف پارٹی اور رہنما کے خلاف ہر جھوٹی سچی بات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں، اپنے لیڈر کو معصوم سمجھتے ہیں اور ساری خرابیاں دوسروں میں تلاش کرتے ہیں۔اور یہ سارے کام ان سے اسٹیبلشمنٹ ہی کرواتی ہے۔ آج کل جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ملبہ اپوزیشن پر جتنا ہے ،اس سے زیادہ حکومت پر اور سب سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ پر پڑتا ہے ،لیکن اگر ملک کیآئین قوانین اور اختیارات کو دیکھا جائے تو سب سے بڑی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے، خواہ پی پی پی کی ہو،کسی مسلم لیگ کی یا پی ٹی آئی کی۔ قانون اختیار اورآئین کے تحت وہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت روکنے کے پابند بھی ہیں اور اس کا قانونی اختیار بھی رکھتے ہیں، لیکن چونکہ ایک طویل عرصے سے ایسی سیاسی قیادت تیار کی جارہی ہے جو صاف ستھری نہیں اس کی کوئی نہ کوئی بڑی کمزوری اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہوتی ہے ،وہ اس کمزوری کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کا ہر حکم بجا لانے کو تیار ہوجاتی ہے ،آج بھی یہی صورتحال ہے پورا حکمران ٹولہ کمزوریوں کا شکار ہے ، اس لیے کبھی غلط کام کو منع نہیں کرسکتے۔یہ خصوصیت ،موجودہ اور سابق تمام حکومتوں میں ہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ سب اپنے سنگین اختلافات کے باوجود کبھی کبھی ایک ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں ،لیکن صرف اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر جیسے باجوہ کو الیکشن دینا اگر یہی کام یہ سب قومی مفاد میں کریں تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا ، وہی جو ملک کو کچھ بھی دیے بغیر ان کیساتھ ہو رہا ہے۔ کوئی دوسال جیل میں رہتا ہے کوئی جلاوطن ہوتا ہے کوئی مقدمات بھگتتا ہے، ان سب کو یہ آسرا ہوتا ہے کہ اگلی باری ہمیں ملے گی اسی چکر میں یہ آلہ کار بنے رہتے ہیں، ملک کا بیڑا غرق ہو رہا ہے جس ترقی کے یہ اپنے اپنے دور حکومت میں دعوے کرتے ہیں اسی کے دشمن خود بن جاتے ہیں ، اس صورتحال کو عوام کی بڑی تعداد سمجھ چکی ہے،اگر یہ بات حکمراں سیاسی ٹولہ بھی سمجھ لے تو ملک برسوں نہیں مہینوں میں درست راہ پر چل پڑے ،لیکن اس کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے حق بات کہنے اور ڈٹ جانے کی جرات ہونی چاہیے۔اس معاملے میں عوام کو بھی اب ووٹنگ کا رجحان بدلنا ہوگا ، محض کام کروا دینے کو معیار نہ بنایا جائے ،ملک کو عالمی ساہوکاروں کے چنگل سے نکالنے والی، جرأتمندقیادت کو پہچان کر اس کے حق میں رائے دی جائے ،اسے کامیاب کرایا جائے تو ملک حقیقی ترقی کرسکتا ہے ورنہ ساری ترقی کاغذوں ہی میں رہے گی اور حکمران اور اپوزیشن اب ایک دوسرے پرالزام لگانے کے بجائے اصل ذمہ دار کو سامنے لائیں ، جس کے اشاروں پر یہ سارے غلط کام کرتے ہیں۔ لے دے کر عدلیہ سے امید لگائی جاتی تھی سو وہ بھی اب مصلحت کا شکار ہے۔