ّ1947سے فارم 47 کے دور حکومت تک

252

1947 میں قیام پاکستان کے بعد ملک کے کیا حالات تھے اور اب فارم 47 والوں کی حکومت میں ملک کا کیا حال ہے۔ اس پر بات کرنے سے پہلے ہم کچھ تاریخ کے جھرونکوں میں جھانک کر دیکھتے ہیں کہ جب برصغیر میں تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی تو اس وقت صرف علامہ اقبال ہی نے پاکستان کا خواب نہیں دیکھا تھا بلکہ برصغیر کا ہر مسلمان پاکستان کا خواب دیکھ رہا تھا یا اس کو حسین ملک کے حسین خواب دکھائے جارہے تھے۔ خواب دکھانے والے مخلص رہنمایان کرام تھے وہ محض جذباتی نعرے ہی نہیں لگا رہے تھے بلکہ وہ ان جذباتی نعروں کی شکل میں نئے ملک کا دستور اور پروگرام پیش کررہے تھے۔ مثلاً جو نعرے لگ رہے تھے کہ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ یعنی مسلم لیگ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علٰیحدہ مملکت کی جدوجہد کررہی ہے لہٰذا تمام مسلمان اس مقصد کے حصول کی خاطر مسلم لیگ کے ہاتھ مضبوط کریں، یا یہ نعرہ کہ کٹ کے رہے کا ہندوستان اور بن کے رہے گا پاکستان یعنی اب ہر حالت میں پاکستان کو بننا ہی بننا ہے یا پھر یہ نعرہ کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ دستور ریاست کیا ہوگا محمد الرسول اللہؐ یعنی اس ملک میں حاکمیت اعلیٰ خدائے واحد کی ہوگی اور ملکی قوانین شریعت مصطفی کی روشنی میں بنائیں جائیں گے۔

بچپن میں ہم بہن بھائی فرصت میں امی کے ساتھ بیٹھتے تھے وہ ہمیں ہندوستان کے اپنے شہر الہ ٰ آباد کی باتیں سناتی تھیں ہم بھی بڑی دلچسپی سے ان کی باتیں سنتے تھے، اس میں وہ اپنے رشتہ داروں کے بارے میں بتاتی تھیں کہ کون لوگ آگئے کون وہیں رہ گئے اسی طرح اپنے محلے اور شہر کے مختلف علاقوں کے بارے میں بھی بتاتی تھیں اپنے گھر کا وہ پورا نقشہ کھینچتی تھیں کہ کہاں آنگن تھا باورچی خانہ کیسا تھا کمرے کتنے تھے۔ اسی طرح وہ چونکہ پاکستان بننے کے تین سال بعد آئیں تھیں اس لیے پاکستان بننے کے بعد وہاں پر اس نئے ملک کے بارے جو باتیں وہ سنتی تھیں وہ انہوں نے ہمیں بھی بتایا کہ ہم سنتے تھے کہ پاکستان میں صبح فجر کے لیے لوگوں کو اٹھانے کا سرکاری انتظام ہے اور خواتین عورتوں کو گھروں میں فجر کے لیے اٹھانے آتی ہیں اسی طرح ہم نے یہ بھی سنا کی پاکستان میں ایسے قوانین بنائے جارہے ہیں کہ جس میں اسلامی شریعت کے مطابق چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے، قتل کرنے والوں کو شارع عام پر پھانسی کے تختے پر لٹکایا جائے گا۔ امی کہتی ہیں یہ سب سن کر ہمیں بڑا اشتیاق تھا کہ ہم بھی پاکستان جائیں اور اپنے اسلامی ملک میں رہیں اور ہم جب اپنی والدہ یعنی ہماری نانی سے کہتے کہ اماں پاکستان چلو تو وہ یہی کہتیں کہ راستے میں مارا ماری اور قتل عام ہورہا ہے کچھ عرصے بعد چلیں گے پھر یہ ہوا کہ پاکستان بننے کے دو ڈھائی سال بعد کچھ رشتے دار اور اہل محلہ کا قافلہ بنا کہ اب درمیان میں حالات کچھ بہتر ہوگئے ہیں اب پاکستان کے لیے رخت سفر باندھ لیا جائے۔ امی کے گھر کا جو قافلہ بنا اس میں امی ان کی ایک بہن، بہنوئی، چھوٹا بھائی، بہن کی شیرخوار ایک سال کی بچی اور امی کی والدہ اس طرح تین خواتین، ایک مرد اور دو بچوں پر مشتمل یہ خاندان ایک بڑے قافلے میں شامل ہوکر پاکستان کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس خاندان کے سب لوگ آگئے امی کی شادی کراچی ہی میں ہوئی۔

دوران ہجرت کی اور بھی باتیں بتائی تھیں کچھ تو یاد نہیں رہ گئیں اور کچھ کی ضرورت بھی نہیں اصل بات جو بتانے کی ہے وہ یہ کہ امی کہتی ہیں کہ ہم کھوکھراپار کے راستے پاکستان آئے اور جب ہماری بس یا ٹرک یا بیل گاڑی وغیرہ سندھ کے شہر کھوکھراپار میں داخل ہوئی رات کا وقت تھا قافلے کے لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ اب ہم پاکستان کی سرحد میں داخل ہوگئے ہیں تو پاکستان زندہ آباد کے بڑے فلک شگاف نعرے لگائے گئے پورے راستے ہم جس خوف کے سائے تلے آئے وہ خوف یکدم ختم ہوگیا پھر ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا کہ بہت سارے مرد خواتین سرزمین پاکستان کی ریتیلی زمین پر سجدہ کررہے ہیں بہت سے لوگ اس پاکستانی مٹی کو اٹھا کر چہروں پر اور ہاتھوں پر مل رہے ہیں کئی مرد و خواتین بلک بلک کر رو رہے تھے یہ خوشی کا رونا تھا امی کہتی ہیں یہ مناظر میں شاید زندگی بھر نہ بھولوں۔ پھر یہ قافلہ کراچی آگیا امی کی فیملی نے اے بی سینیا لائن کی جھونپڑی میں رہائش اختیار کی۔ وہاں سے پھر لیاقت آبادکا ایک مکان ملا سب لوگ یہاں آگئے اس وقت کی سرکار نے صرف ایک کمرہ بنا کر دیا تھا باقی 90 گز کی مکانیت کی حد بندی پتھر وغیرہ رکھ کے کردی تھی ایک کمرے کے علاوہ سب حصہ بالکل اوپن تھا لوگوں نے اپنی استطاعت کے مطابق چٹائیوں سے ٹاٹ کے پردوں سے کچی مٹی کی دیواروں سے اپنی اپنی حدود بندی اور پردے کا انتظام کرلیا تھا جن کو اللہ نے دیا تھا انہوں نے اینٹوں کی دیواریں اٹھا لی تھیں۔ کچن واش روم نام کی کوئی چیز نہیں تھی ہر دوتین گلی بعد درمیان میں سرکاری لیٹرینیں بنی ہوئی تھیں۔ شروع میں تو اس کا کچھ استعمال ہوا لیکن بعد میں اس کی حالت ایسی ہوگئی جیسے آج کا پاکستان دیواریں تھیں مگر ٹوٹی ہوئیں، دروازے ٹوٹ گئے، پانی نہیں صفائی کا انتظام نہیں پھر لوگوں نے اپنے گھروں میں ٹاٹ کے پردوں سے لیٹرین بنالیے۔ لیکن پھر بھی بہت سے خاندان ایسے تھے جو جو اپنی حدود بندی کے لیے کچھ نہ کرسکے ان کے گھر کھلے رہتے اور اکثر وہ گھر ایک گلی سے دوسری گلی میں جانے کی رہ گزر بن جاتے رات کے وقت کمرے کو بند کرکے لوگ سو جاتے لیکن کسی قسم کی چوری چکاری کا کوئی خوف نہ تھا۔ جی ہاں یہ 1947 کے دور کی حکومت تھی جس کے دور میں پولیس بھی بہت کم تھی فوج سمیت ملک کے کئی اداروں کی بھی ٹھیک سے تشکیل نہیں ہوسکی تھی لیکن اس کے باوجود امن و امان تھا کسی کو کسی سے کوئی خوف نہیں تھا ہندوستان سے لٹ پٹ کر آنے والوں کی پورے ملک میں جو پذیرائی ہوئی اس نے قرون اولیٰ کے دور کے انصار و مہاجرین کی قربانیوں کی یاد تازہ کردی تھی ہمارے ایک دوست بتاتے ہیں کہ ان کی عمر چار سال تھی وہ اپنی والدہ کے ساتھ دہلی سے آرہے تھے کہ راستے میں سکھوں نے حملہ کردیا ان کی والدہ کی گود میں ان کا چھوٹا بھائی تھا جس کو سکھوں نے کھڑکی سے ہاتھ ڈال کر اٹھا لیا اور لے گئے ایک سکھ نے باہر سے تلوار چلائی جو ان کے ہونٹ پر لگی۔

پھر وہ کہتے ہیں جب ہماری گاڑی لاہور اسٹیشن پر آئی تو ہمیں یاد ہے لاہور کے شہری بہت بڑی مقدار میں دال سالن روٹی لے کر آئے ہوئے تھے اور آواز لگاتے ہوئے جارہے تھے کہ روٹی سالن لے لو اور پوری گاڑی میں لاہور کے پنجابی بھارت سے آنے والوں کی اس طرح خدمت کررہے تھے جیسے کہ وہ سب ان کے رشتے دار ہیں، سب کو کھانا کھلا رہے تھے پانی اور پھل فروٹ دے رہے تھے جی ہاں وہی پنجابی جنہیں ایک صوبے میں شناختی کارڈ دیکھ کر بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے اسی طرح جو مہاجرین اندرون سندھ گئے مقامی سندھیوں نے ان کی بہت اچھی آئو بھگت کی ان کے رہنے سہنے میں ان کی بھرپور مدد کی۔ یہ 1947 کے پاکستان کی ایک جھلک ہے جب عام لوگوں کی جیب میں پیسے نہیں تھے لیکن اخلاق و مروت کی دولت سے مالا مال تھے ایک دوسرے کی خبر گیری اور مصیبت کے وقت کام آنا یہ معاشرے کا عام رجحان تھا اس وقت حکومت کا رویہ بھی اپنے شہریوں کے ساتھ محبت والا رویہ تھا رشوت کا چلن نہ ہونے کے برابر تھا دفاتر میں عام لوگوں کے مسائل آسانی سے حل ہو جاتے۔

فارم 47 والی حکومت کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہنا کہ یہ سب آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں پاچنار میں خون بہہ رہا ہے ہمارے حکمران اسلام آباد کو سیل کررہے ہیں کے پی اور بلوچستان میں آئے دن دہشت گردی کی وارداتیں ہورہی ہیں لیکن حکومت ان دہشت گردوں کو پکڑنے کے بجائے تحریک انصاف کے کارکنوں کو گرفتار کررہی ہے ابتدائی دور کی حکومتیں سچ پر قائم تھیں وہ اقتدار میں رہنے کا استحقاق رکھتے تھے لیکن آج کی حکومت سو فی صد جھوٹ پر قائم ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ 1947 کے دور حکومت سے فارم 47 کے دور حکومت تک آنے کی بہت ساری وجوہات و اسباب ہیں اس پر تو کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ ہمارے حالات اسی وقت ٹھیک ہوسکتے ہیں جب ہم 1947 والے دور کی روایات کو زندہ کریں گے اور عوام کی مرضی کو بالا دست رکھیں یہی سارے مسئلے کا واحد حل ہے۔