بائیڈ کی شروع کردہ عالمی جنگ ٹرمپ سے رکے گی؟

365

ان کی ساری زندگی اس کوشش میں رہی ہے کہ دنیا کو جنگ کے جہنم میں دھکیل کر تباہی و بربادی میں اضافہ کیا جائے۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ یوکرین روس جنگ کے آغاز سے عالمی جنگ کا سائرن بج چکا ہے۔ ان کہنا ہے کہ ٹرمپ کی کابینہ کے اعلان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام جاری رہے گا۔ امریکا کی سبکدوش ہونے والی بائیڈن انتظامیہ ’جلتی پر تیل کا کام‘ کر رہی ہے اور اس کی یہ کوشش ہے کہ وہ جاتے دنیا کو عالمی جنگ کے شعلوں کے حوالے کر جائے اور ٹرمپ کی کابینہ اس بات کے لیے مکمل طور سے تیار ہے۔

امریکا کا کہنا ہے کہ روس یوکرین تنازعے میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ دنیا کو کسی نہ کسی صورت عالمی جنگ کے حوالے کیا جائے گا تاکہ اسرائیل کی دلی خواہش پوری کی جائے۔ امریکی انتخاب سے قبل کہا جارہا تھا کہ بائیڈن کے برعکس ٹرمپ دنیا کو جنگ سے دور لے جاتے ہیں۔ اسی لیے امریکی عوام نے ٹرمپ کو ووٹ دیا کہ دنیا کو جنگ سے نجات مل سکے گی اور دنیا کو تباہ کرنے والی یوکرین اور غزہ کی جنگ بند ہو جائے گی۔ لیکن ٹرمپ اور بائیڈن کی انتخابات کے بعد پہلی رسمی ملاقات کے دوسرے دن ہی بائیڈن نے یوکرین کو خطر ناک دور اور قریب حملے کرنے والے میزائل روس پر داغنے کی اجازت دے دی۔

یہ میزائل مکمل طور سے تو نہیں لیکن کسی حد تک ایٹمی ہیڈ وار کے ساتھ بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ بائیڈن کی اجازت پر یوکرین نے فوری عمل کیا اور جواب میں گزرے ہفتے جمعرات کو یوکرین کے شہر دنیپرو میں ہونے والا ایک روسی فضائی حملہ گزشتہ حملوں سے شدت کے اعتبار سے تھوڑا مختلف تھا اور عالمی اخبارات بتاتے ہیں کہ فضائی حملے کے بعد تقریباً تین گھنٹے بعد تک دھماکے سنے جاتے رہے ہیں۔ اس فضائی حملے میں استعمال ہونے والا میزائل اتنا طاقتور تھا کہ اس کے بعد یوکرینی حکام نے کہا کہ اس میزائل میں بین البراعظمی میزائل والی ساری خصوصیات موجود تھیں۔ تاہم مغربی حکام نے یوکرینی حکام کے دعوے کی فوراً ہی تردید کر دی اور کہا کہ بین البراعظمی میزائل حملے کے نتیجے میں امریکا میں فوراً نیوکلیئر الرٹ جاری ہو جاتا۔ لیکن صدر پیوٹن نے یہ کہہ کر دنیا کو حیران کر دیا کہ پوری دنیا کے دفاعی آلات اور دفاعی شیلڈ کے باوجود فی الحال اسے روکنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ روسی حملے میں دنیپرو میں عسکری انڈسٹریل مقام کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس میزائل حملے کو ایک ’کامیاب‘ تجربہ قرار دیا کیونکہ ان کا ’ہدف پورا‘ ہو گیا ہے۔ اپنی تقریر کے ایک دن بعد دفاعی حکام سے بات کرتے ہوئے صدر پیوٹن نے مزید کہا تھا کہ اس میزائل کے تجربے جنگی صورتحال میں بھی جاری رہیں گے۔ پیوٹن نے اس ہتھیار کی وضاحت تو دی ہے لیکن کسی کو یہ نہیں معلوم کہ آخر یہ ہتھیار ہے کیا۔

یوکرینی احکام کا کہنا ہے کہ یہ بین البراعظمی ’سیڈر‘ میزائل کی ایک سیریز ہے جس کو ابھی تجربے سے گزارا جارہا ہے، جس نے یوکرین میں اپنے ہدف تک پہنچنے میں 15 منٹ لیے ہیں۔ یوکرین کا شہر دنیپرو میزائل فائر کیے جانے والے مقام سے ایک ہزار سے زیادہ کلومیٹر دور ہے۔ اس میزائل میں چھے ایٹمی وار ہیڈز نصب تھے۔ بی بی سی کے ماہرین نے فضائی حملے کی ویڈیو کا معائنہ کیا ہے اور ان کی تحقیق یوکرینی حکام کے اندازے سے مطابقت رکھتی ہے۔ جس مقام پر روسی فضائی حملہ ہوا وہ دنیپرو شہر کے جنوب مشرق میں واقع ایک انڈسٹریل علاقہ ہے۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ میزائل کی رفتار اہم کیوں ہوتی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ میزائل کی رفتار جس قدر تیز ہو گی میزائل اتنی تیزی سے دشمن کے دفاعی نظام سے محفوظ رہ سکے گا۔ اگر صدر پیوٹن کی بتائی گئی میزائل کی خصوصیات درست ہیں تو ’اوریشنِک‘ میزائل کا شمار ہائپرسونک میزائلوں میں کیا جا سکتا ہے۔ میزائل کی رفتار اس لیے اہم ہوتی ہے کیونکہ جتنی تیز اس کی رفتار ہوگی اْتنی ہی جلدی وہ اپنے ہدف تک پہنچ جائے گا۔ اگر میزائل برق رفتاری سے اپنے ہدف تک پہنچے گا تو مخالف عسکری قوت کے پاس اس کا ردِعمل دینے کے لیے وقت بھی کم ہوگا۔ ماسکو میں سرکاری ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر نے کہا، یوکرین کی جانب سے ایٹمی میزائل داغے جانے سے قبل یوکرین میں ایک علاقائی تنازع جو پہلے مغرب کی طرف سے بھڑکایا گیا تھا، اب یہ بحران عالمی سطح پر اثرات مرتب کرنے والا بن چکا ہے۔

اس حقیقت سے انکا ر نہیں ہے ناٹو اور بائیڈن نے یوکرین روس جنگ کو بڑھاوا دینے میں ہر ممکن کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ امریکی حکام اور ناٹو نے پیوٹن کی جانب سے اس ہتھیار کو درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کے طور پر بیان کیا ہے جس کی رینج 3000 سے 5500 کلومیٹر (1860 سے 3415 میل) ہے۔ لیکن امریکا اور برطانیہ کے جن میزائل کو یوکرین نے استعمال کیا ہے اس کی رینج بھی یہی ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے روس اور یوکرین میں جاری کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ یوکرین نے گزرے ہفتے روس کے اندر اہداف پر امریکی اور برطانوی میزائل داغے حالانکہ ماسکو نے خبردار کیا تھا کہ وہ اس طرح کی کارروائی کو ایک بڑی کشیدگی کے طور پر دیکھے گا۔ زیلنسکی نے پیوٹن کے ٹیلی ویژن پر آنے کے بعد ایکس پر لکھا کہ روس کی جانب سے نئے ہتھیار کے استعمال کا اعتراف روسی سرزمین پر شمالی کوریا کے فوجیوں کی تعیناتی کے بعد ایک اور کشیدگی ہے۔ زیلنسکی نے کہا کہ جمعرات کو ہونے والا حملہ اس بات کا ’ایک اور ثبوت ہے کہ روس کو امن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے‘۔

کیا دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے؟ روس امریکا کو کھلا چیلنج کر رہا ہے اور اس کے یورپی اتحادی بھی امریکا کے ہمراہ یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان حالیہ کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یوکرین کی فضائیہ کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل داغا گیا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان طویل عرصے سے جاری جنگ کی وجہ سے اب تیسری عالمی جنگ چھڑنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں؟ روس نے 21 نومبر کو یوکرین کے شہر دنیپرو پر اپنا نیا ہائپر سونک بیلسٹک میزائل اوریشنک (ہیزل ٹری) فائر کیا۔ اس حملے کو نہ صرف روس کی فوجی طاقت کے مظاہرے کے طور پر ہی نہیں بلکہ مغربی ممالک کے لیے ایک سخت وارننگ کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ یوکرینی فوج کے مطابق اس حملے میں سات کروز میزائل بھی فائر کیے گئے۔ روس کا نیا ہائپر سونک میزائل اوریشنک جدید ہائپر سونک ٹیکنالوجی سے لیس ہے جو اپنی خطرناک کارکردگی اور جوہری صلاحیت کی وجہ سے سرخیوں میں ہے۔ یہ میزائل آواز کی رفتار سے کئی گنا زیادہ رفتار سے ہدف پر حملہ کرتا ہے۔ اس کے فاصلے اور درستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آسٹرخان کے علاقے سے داغا گیا یہ میزائل 700 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد دنیپرو تک پہنچا۔ اور اس نے مختلف علاقوں کو گھیر کر وقفے وقفے حملہ کیا ہے۔ ان حالات اندازہ ہو رہا ہے کہ بائیڈ کی جانب سے چھیڑی گئی عالمی جنگ کا آغاز ہو جائے گا اور یہ ٹرمپ سے نہیں رکے گی۔