مرغا بننے کے فوائد

225

سول انجینئرنگ کے بعد 12 سال سے دوبئی میں کنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ منسلک تھا۔ آج کراچی ائر پورٹ پر جیسے ہی بیلٹ سے سامان ٹرالی میں رکھا اسکول فیلو کاشف مرغا، نظر آیا۔

ساری کلاس اسے اسی نام سے پکارتی تھی۔ وہ کسٹم سے پہلے فارغ ہوگیا میں کسٹم سے فارغ ہو کر جلدی سے ٹرالی لے کر نکلا۔ باہر وہ ویٹنگ ایریا میں وہ ٹیکسی کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے آواز لگائی کاشف!

اس نے جھٹ سے پلٹ کر دیکھا وہ بھی مجھے پہچان گیا۔ بولا منصور!

ہم گلے ملے اور بس باتیں شروع ہوگئیں کاشف نے ٹیکسی واپس کرائی۔ ہم کیفی ٹیریا میں بیٹھ گئے۔ کاشف نے اپنی جاب کا بتایا۔ وہ چیف اکاؤنٹینٹ تھا۔ ریاض میں اور ہماری کبھی مڈبھیڑ نہیں ہوئی اور ہم آتے جاتے رہتے تھے ان شہروں میں۔

’’مگر اپنے وطن سے بچھڑے تھے تو ادھر ہی ملنا تھا‘‘۔ منصور نے کہا

پھر منصور نے مزاق کیا یار اردو کے سر چھٹی سے آٹھویں تک مرغا بناتے تھے۔ تمہیں مجھے حساب کے استاد محسن صاحب تو ہم گورنمنٹ اسکول کے کامیاب مرغے ہیں آج کے‘‘۔

مگر اب ہمارے بچے بھاری فیسیں دے کر بڑے نامی گرامی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ مگر پڑھائی کا برا حال میرٹ اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ مگر نالج زیرو یا اونچی دکان پھیکا پکوان ہے۔ اس وقت شاگردوں کو سزائیں جو دیتے تھے۔ وہ جسمانی ورزش ہی ہوتی تھیں۔ بعد میں چھڑیوں سے تشدد کا دور شروع ہوا۔ شکر ہے ہمارے وقتوں میں یہ نہیں ہوا۔ والدین اور مغرب نے اس پر پابندی تو لگائی مگر آج کے بچے بے قابو ہوگئے ہیں۔ کچھ موبائل اور والدین کے ساتھ استادوں کا احترام بھی جا تا رہا۔ الٹا استادوں پر تشدد شروع ہوگیا۔

ہمیں استاد کان پکڑنے ایک ٹانگ پر کھڑا ہونا اور آخری سزا سخت غلطی کی مرغا اور بچے شرارت سے توبہ کر لیتے تھے‘‘۔ منصور نے کہا مگر کاشف نے آہ بھری کیونکہ کلاس میں سب سے زیادہ مرغا بنتا اپنی معصومیت کی وجہ سے اسی پوری کلاس میں کاشف مرغا مشہور تھا۔ ویسے بھی پاکستان میں شریف لوگ مرغے ہی سمجھے جاتے ہیں جو بچارے اپنے ضمیر اور نفس کے ہاتھوں مجبور ہیں غلط کام نہیں کرتے سچ بولتے ہیں۔ نیکی کرتے ہیں انہیں حکومت سمیت ہر کوئی انہیں مرغا بناتا ہے اور قربان بھی کرتا ہے۔

منصور نے بتایا ’’یار مجھے ریڑھ کی ہڈی، کمر اور گردن میں درد ہوا بڑے علاج کروائے اور مگر ٹھیک نہ ہوا ایک دن میں نے سر سے بات کی فون پر تو انہوں نے کہا ’’مرغا بنا کرو یہ سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔ میں نے کہا سر پھر اس عمر میں مرغا۔ ڈرتے ہوئے سر سے کہا ’’میرے استاد نے بتایا تھا مجھے بیٹا یہ سزا بھی ورزش ہے۔ جو برسوں سے استاد بچوں کو کرواتے آئے۔ مگر اب چند سال سے تعلیمی اداروں اور شاگردوں کی نا اہلی کی اصل وجہ سے انہوں نے مرغا بننا اور بنانا چھوڑ دیا۔ سر کے ہاتھ سے ڈنڈا آیا۔ حکومت نے یہ اور بچوں نے چھینا طالب علموں نے بندوق تان لی۔

سر نے کہا ’’یہ پیٹ کے پٹھوں کی بھی ورزش ہے اور کولہوں پنڈلیوں کو کھینچتی ہے رانوں اور گھٹنوں کو مضبوط کرتی ہے۔ یہ ورزش دوسرے لوگوں کو بھی بتانا جو اس طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوں صدقہ جاریہ سمجھ کر‘‘۔

’’بہت خوب یار آج مرغا بننے کی حقیقت اور فوائد سمجھ میں آئے‘‘۔ کاشف نے کہا

تبھی میں اس طرح کی بیماری سے محفوظ ہوں۔ الحمداللہ