ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پر فیصلے کے 5 ماہ بعد جسٹس منصور کا اضافی نوٹ جاری

65
it cannot happen that the court decision

اسلام آباد:عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کے خلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلے کے 5 ماہ بعد اضافی نوٹ جاری کردیا ہے۔

سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جسٹس منصور علی شاہ کا 6 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری کردیا گیا ہے اور اس میں انہوں نے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل سیاسی ٹرائل کی کلاسیک مثال ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کیس میں تفتیش کی منظوری غیر قانونی طور پر دی گئی، سیاسی ٹرائل میں من پسند نتائج کے لیےغیر شفاف طریقے آزمائے جاتے ہیں۔ سیاسی ٹرائل میں عموما سابق اتحادیوں کے ہی بیانات لے کر عموما گواہ بنایا جاتا ہے۔

اضافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھٹو نے خود کہا تھا آئین کی چھتری تلے ہی عدلیہ آزاد رہ سکتی ہے اور کہا تھا صحرا میں پھول نہیں کھل سکتے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آمرانہ دور میں ججوں کو یاد رکھنا چاہیے ان کی اصل طاقت عہدے پر فائز رہنا نہیں آزادی کو قائم رکھنا ہے، جسٹس دوراب پٹیل نے بھٹو کیس میں جرأت مندی سے اختلاف کیا۔ دوراب پٹیل نے ضیا کے جاری کردہ عبوری آئین کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں کہا کہ سمجھوتا کر لینے کی میراث چھوڑنے کے بجائے عہدہ کھودینا ایک چھوٹی سی قربانی ہے، جج کی بہادری کا اندازہ بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے، مداخلت کے خلاف ثابت قدم رہنے سے لگایا جا سکتا ہے۔آمرانہ مداخلتوں کا مقابلہ کرنے میں تاخیر قانون کی حکمرانی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے، دراندازیوں کی فوری مزاحمت اور اصلاح کی جانی چاہیے اور عدلیہ کا کردار انصاف کا دفاع کرنا ہے۔

واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کا تفصیلی فیصلہ 5 جولائی 2024 کو جاری کیا گیا تھا۔