حکمرانوں کے گھمنڈ کے شکار

162

شیر اور گدھے کی کہانی تو سب ہی نے سنی ہوئی ہے۔ ایک جنگل میں شیر اور گدھے کی دوستی ہوگئی۔ گدھے نے شیر کو مشورہ دیا کہ کیوں نہ ہم مل کر شکار کریں اور پھر بعد میں اپنا اپنا حصہ آپس میں تقسیم کریں گی۔ شیر کے ساتھ گدھا بھی شکار کی تلاش میں نکل گیا۔ کافی عرصہ کے بعد ایک جانور کو شکار کیا، شیر نے اس کے تین حصے کیے اور کہا ایک حصہ تو میرا کیونکہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں، دوسرے کو میں نے شکار کیا ہے وہ میرا حصہ ہوا، تیسرا اگر کسی میں دم ہے تو اٹھا لے۔ یہ فیصلہ سن کر گدھے کو اتنی عقل آگئی کہ وہ خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔ یہ شیر اور گدھے کی داستان ہی نہیں بلکہ بالادستی کی داستان ہے۔ یہ طاقتوں کی داستان۔ یہ گھمنڈ ہے ایک طرز کی سوچ کی داستان ہے جس کے عملی مظاہر دنیا بھر میں جابجا دیکھنے کو مل رہے ہیں، جہاں جس کے پاس قوت ہے اس کے پاس بالا دستی کا ہتھیار ہے۔

ابھی تازہ مظاہرہ بھارت کے انتخابات میں نریندر مودی کی بھر پور اور واضح اکثریت سے کامیابی ہے جس میں ایک ارب کی آبادی میں تقریباً نوے کروڑ ووٹروں نے انتخابات میں ووٹ ڈالا ان میں سے تقریباً ساٹھ کروڑ دوٹروں نے مودی کو دوٹ دیا ان میں اکثریت ہندوؤں کی تھی۔ پوری پارلیمنٹ میں تقریباً 25 کروڑ کی مسلم آبادی کے صرف چار ارکان اپنے اپنے مسلم علاقوں سے منتخب ہوئے۔ آج بھارت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں پر ہندو ازم کی شدید لہر نے سیکولر ہندوستان کی شناخت کو تاراج کر کے رکھ دیا ہے۔ بقول نریندر مودی کے اس نے اس سیکولر بھارت کو گنگا میں ڈبو دیا ہے۔ نریندر مودی نے بھارت کے ووٹروں کو متاثر کر کے ووٹ حاصل کیا۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنے ووٹروں کی خواہشات کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے۔ اس کو اس بات کی بالکل پروا نہیں ہے کہ دیگر اقلیتوں کے جذبات اس کے طرز عمل سے کس طرح متاثر ہوں گے کیونکہ اس کو اپنی طاقت اور بالادستی پر بہت گھمنڈ ہے۔ اس طرح کا گھمنڈ اس نے بھارت کے ہندوؤں کے دماغوں میں بھی بھر دیا ہے۔ وہ قو تیں جنہوں نے ہندوستان کو ایک جمہوری قوت بنانے میں اپنی زندگیاں وقف کر دیں وہ دیوار سے لگا دی گئیں جن افراد نے اس کے خلاف آواز بلند کی ان کی آواز کو گلا گھونٹ کر بند کروادیا گیا۔ جس ہندو ازم کے جن کو بوتل سے باہر نکالا گیا ہے وہ جن اب کسی کے قابو میں نہیں آ رہا۔

یہ بالا دستی کا جن ایک ایسا عفریت ہے جو سب سے پہلے اپنے مخالف کو نگل جاتا ہے پھر آہستہ آہستہ اپنے حامیوں کو بھی کھا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہٹلر نے پوری قوم کو تباہی کے ایسے راستے پر لگا دیا جس کی نہ صرف خود قوم کو دو حصوں میں تقسیم ہونا پڑا بلکہ دوسری قوموں کو بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہٹلر نے بھی اپنی قوم کے جذبات کو بھڑکا کر جنگ میں جھونک دیا۔ جنگ نے دنیا اور یورپ میں مختلف قوموں کے درمیان بڑھ کر جنگ عظیم کی شکل میں پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یوں ایک جنونی شخص کی انا اور ضد نے پوری دنیا کے انسانوں کی بڑی تعداد کو لقمہ اجل بنا دیا اور اس طرح یہ جنگ ایٹمی جنگ کی شکل اختیار کر کے ایک ایسی خوفناک تباہی کی طرف لے گئی جس کے اثرات نصف صدی گزرنے کے باوجود اب تک برقرار ہیں یعنی ایک جنونی شخص کی وجہ سے دنیا کو ایک صدی تک تباہی کے اثرات سے گزرنا پڑا۔ اسی طرح اسرائیل کی قیادت نیتن یاہو نے جس طرح سے اپنی قوم کو ایک ایسے راستے پر ڈالا ہوا ہے کہ نصف صدی گزرنے کے باوجود مشرق وسطیٰ میں اب تک امن نا پید ہے آج بھی اس خطے میں کشت و خون جاری وساری ہے۔

دنیا بھر میں آہستہ آہستہ ایسے افراد برسر اقتدار آ رہے ہیں جو کہ لوگوں میں شدت پسندی کے جذبات ابھار کر حکمرانی کی منزل حاصل کر رہے ہیں یہی صورت اس وقت نظر آئی جب ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کی آبادی کے بڑے طبقے کے لوگوں میں منفی جذبات کو ابھار کر ان سے ووٹ حاصل کیے جس کے تحت اس نے بڑی تعداد میں ان کے ووٹ حاصل کیے اور حکمرانی کی منزل تک پہنچے۔ اس طرح کے حکمراں اس قسم کے ہتھکنڈے اختیار کر کے ایک مدت یا دو مدت تک کے لیے حکمرانی تو حاصل کر لیتے ہیں مگر اس کے اثرات کافی طویل عرصے تک قائم رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی فوجی حکمرانوں نے ملک میں شدت پسندی کے حوالے سے اپنا اقتدار طویل مدت تک قائم رکھا ملک میں مذہب کا نام اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا، ان قوتوں کو اپنے ساتھ ملا کر اپنے اقتدار کو طوالت بخشی ان قوتوں نے بعد میں جا کر اتنی طاقت حاصل کر لی کہ وہ ریاست کے لیے ہی خطرہ بن گئے۔ دنیا بھر میں ملک کو دہشت پسندی کا مرکز قرار دیا جانے لگا جب کہ ملک کے اندر ان قوتوں کی وجہ سے بربادی کے ساتھ ساتھ بے پناو جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود خود پاکستان کو اس کا ذمے دار قرار دیا جانے لگا۔ پاکستان دہشت گردی کی وجہ سے بے پناہ نقصانات اٹھانے کے باوجود دنیا بھر کی ہمدردی حاصل کرنے میں بھی ناکام رہا۔ اس کے برخلاف بھارت کی پچھلی حکومتوں نے سیکولر ریاست کے نام پر کشمیر میں بے پناہ مظالم کر کے ریاستی دہشت گردی کا عملی مظاہرہ کرنے کے باوجود دنیا بھر کی ہمدردیاں بھی حاصل کر لیں۔ کیونکہ ان کے ملک میں سیاسی حکومتیں دنیا بھر کو اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب رہی تھیں، اس کے بر خلاف ہمارے غیر سیاسی حکمرانوں نے ملک میں مذہب کو اپنے مقاصد کے لیے بھر پور استعمال کر کے اپنا اقتدار قائم رکھا، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا۔

ہمارے حکمران عوام کے جذبات کو ابھار کر اپنے مقاصد تو حاصل کر لیتے ہیں مگر اس کے منفی اثرات ملک میں طویل عرصہ تک قائم رہتے ہیں۔ پاکستان اس طرح کے تجربے کو اختیار کرنے کے بعد اس کے منفی اثرات کو کسی طرح سے کم کرنے میں کامیاب ہوا ہے، مگر باقی دنیا بھر میں جہاں جہاں عوام کے ایک طبقے میں منفی جذبات کو ابھار کر حکمرانوں نے جو مقاصد حاصل کیے ان کے منفی اثرات ان کے علاقے میں طویل مدت تک قائم رہیں گے۔ اس لیے بھارت کے عوام کو بھی ان راستوں سے واپسی اختیار کرنا چاہیے جن پر چل کر وقتی طور پر تو کچھ عرصے کے لیے فوائد حاصل ہو جاتے ہیں مگر بعد میں ان کو منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بات بھی وقت ثابت کرے گا اس لیے بھارت یا اس جیسے ملکوں کو شدت پسندی کا سہارا لے کر جو کامیابی حاصل ہوتی ہے وہ وقتی ہے جس کے اثرات اس کو طویل عرصے تک بھگتنے ہوں گے جیسا کہ پاکستان میں پچھلی غیر سیاسی حکومتوں کی وجہ سے پاکستان کو بے پناہ تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے کہ شدت پسندی اور بالادستی کی پالیسیوں کا نقصان بھی بڑا ہوا ہے۔ اب بھی ہمارے سیکورٹی فورسز کے جوان آئے دن اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں اور ان حکمرانوں گھمنڈ کی سزا بھگت رہے ہیں۔