پارہ چنار!!! اک مریض ِ لادوا؟

205

پارہ چنار ایک بار پھر خون میں نہا گیا اور حکمران ایک بار فقط تماشائی بن کر رہ گئے۔ گاڑیوں کے قافلے پر جس وحشیانہ انداز سے حملے ہوئے اس نے ہر حساس دل کو لرزا کر رکھ دیا۔ اس حملے کے بعد تشدد کا آتش فشاں پھٹ پڑا اور اب کیفیت یہ ہے کہ کوئی پتا نہیں کہ کون مر رہا اور کون مار رہا ہے۔ بلوے اور ہجومی تشدد کا ایک راج ہے ایسی راہوں اور ماحول میں پھر عقل وخرد کا کوئی گزر نہیں ہوتا۔ پارہ چنار طویل عرصے سے پاکستان کے جغرافیائی وجود میں رستے ہوئے بہت سے زخموں میں سے ایک ہے اور دوسرے تمام زخموں کی طرح اس کے مرہم کا کبھی سنجیدگی سے کوئی سامان نہیں ہوا اور یوں پاکستان اپنے زخموں کو لیے ایڈہاک ازم جسے پنجابی میں ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ کہا جاتا ہے، پر بے نام راہوں اور گم نام منزلوں کی جانب جھومتا جھامتا چلتا چلا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کی ترجیحات اپنی حکمرانی کے دن کسی رکاوٹ کسی بدمزگی کسی جھنجھٹ میں پڑے بغیر سکون سے گزارنا ہوتا ہے اس لیے ان میں معاملات کو حل کرنے کا عزم ہوتا ہے اور نہ منصوبہ بندی اور نہ ہی اس عمل میں دلچسپی۔ یوں لگتا ہے کہ حکمران کلاس نے یہ طے کرلیا ہے کہ پاکستان کو بس اسی انداز میں چلنا ہے اور اسے اسی انداز میں چلنے دینا چاہیے۔ مگر …؟

پارہ چنار ہمارے زمانۂ طالب علمی کی یادوں کی ہارڈ ڈسک میں پڑی ایک یاد ہے جب اس خطے میں افغان جہاد عروج پر تھا۔ 1988 اگست کے دن تھے جب بی اے کے امتحان کے بعد دوست احباب کے ایک گروپ کے ساتھ اس علاقے سے گزر ہوا تھا۔ اس سفر میں راہ چلتے ہوئے صدہ بازار کے ایک ہوٹل میں چائے کے لیے رکے تو ہمیں بتایا کہ ہوٹل کے مالک حاجی صاحب نابینا ہیں اور وہ پارہ چنار کی لڑائی میں ایک راکٹ لانچر کے استعمال کے باعث بینائی کھوچکے ہیں۔ ہمارے تجسس میں اضافہ ہوا کہ مقامی تصادم میں راکٹ لانچر کا کیا کام؟ تو جواب ملا کہ یہاں لڑائی میں بھاری اسلحہ استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت بھی ان لڑائیوں کا رنگ فرقہ وارانہ تھا۔ یہ لڑائی فطری تھی یا اس کی بُنت ہی فرقہ وارانہ انداز سے کی گئی تھی یہ تو اس وقت معلوم نہ ہوسکا مگر وقت نے اس بات کو بے نقاب کر دیا ہے کہ حقیر مقاصد اور مفادات کے تحت پارہ چنار کو ایک ناسور کے طور پر برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اس دوران کوہِ سفید کے دامن سے ہم گھر کو یاد کرتے ہوئے پارہ چنار کی روشنیاں دیکھتے رہے۔ آج اس بات کو چھتیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر پارہ چنار وہیں کا وہیں ہے بلکہ پاکستان بھی اس سے زیادہ خستہ حال ہے۔ نت نئے بحران اس مملکت خداداد میں جنم لیتے ہیں یا دانستہ پیدا کیے جاتے ہیں اور پھر باقی تمام عرصہ ان بحرانوں کی آگ کو سینکتے اور ہاتھ تاپتے گزر جاتا ہے کیونکہ بحران حل کرنے کی نہ حاجت محسوس کی جاتی ہے اور نہ ہی نیت ہوتی ہے۔ وگرنہ ہمارے بہترین حکمت کاروں کے لیے ایسے بحرانوں کا حل تو فقط بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

یہ وہ علاقہ ہے جہاں جرگہ کی مضبوط روایت موجود ہے اور تنازعات کو حل کرنے کے اس انداز سے پہاڑ جیسے اختلافات بھی دور کیے جانے کی روایت ہے۔ خدا جانے داخلی عارضوں کی شفا یابی کے معاملے میں ہمارے اداروں کی حکمت کاری، تجربہ اور بصیرت و صلاحیت کہاں چلی جاتی ہے؟ یوں پارہ چنار کا زخم چالیس سال سے رستا چلا آرہا ہے۔ اس دور میں راستوں کی بندش، خانہ جنگی، محاصروں کی کہانیاں ہی سننے کو ملتی رہیں غرض یہ کہ پارہ چنار کو کبھی دائمی اور حقیقی سکون میسر نہ آسکا۔ جنرل پرویز مشرف کی ’’مشہور زمانہ‘‘ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے دوران طوری قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک میڈیکل طالب علم اکثر گلہ شکوہ کرتے رہتے تھے کہ آپ پوری دنیا کے بارے میں لکھتے ہیں کبھی پارہ چنار کے حالات پر لکھا کریں۔ میرا جواب ہوتا تھا اس مسئلے کی جتنی سمجھ ہے اور جس قدر خبریں اس برمودہ تکون سے باہر آتی ہیں ان سے حالات کی صحیح تصویر ذہن میں بننے ہی نہیں پاتی سو ہم بھی دہشت گردی کے واقعات کی مذمت پر اکتفا کرکے حکومت سے حالات کو بہتر بنانے کی دست بستہ گزارش کرکے پہلے قلم اور اب کی بورڈ گھسیٹتے ہوئے گزرجاتے ہیں۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا ہر مسئلہ بیرونی نہیں بلکہ کچھ مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ ہم نے حالات کے منظر سے غیر متعلق اور غیر موثر ہوجانے کے خوف کو حرز جاں بنا رکھا ہے اور اس کے لیے مسائل کی پنیری لگانا اس کی آبیاری کرنا اور پھر اسے لہلاتی ہوئی فصل بنانا ہمارا طرۂ امتیاز بن چکا ہے۔ دنیا میں اور جگہوں پر بھی پوشیدہ مقاصد اور مفادات کے لیے یہ کھیل کھیلے جاتے ہیں مگر ہمارا اناڑی پن ہے کہ ہم کھیل تو شروع کرتے مگر اسے ختم کرنا یا ختم کرنے کا فن بھول جاتے ہیں اور یوں پاکستان کے ناتواں وجود پر ایک اور بوجھ ایک اور بھاری پتھر لاد دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے آج کا پاکستان مسائل کا ایک جنگل بن چکا ہے۔