سندھ حکومت کی تعلیم دشمنی پر عدالتی ریمارکس

88

آئین کی اٹھارویں ترمیم کے بعد سے تعلیم بھی صحت کی طرح صوبائی معاملہ ہوگیا ہے اور کوئی صوبائی حکومت تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دے رہی ہے جس کا یہ شعبہ مستحق ہے ،لیکن صوبہ سندھ اس معاملے میں بھی نالائقی میں نمبر لے گیاہے اس کی مثال اسی صوبے کی عدالت سے مل رہی ہے،جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس امجد سہتو نے درسی کتب عدم فراہمی کیس میں ریمارکس میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سندھ ہے جہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے ، ڈیپوٹیشن پر تعینات ایک افسر کو بچانے کے لیے پورا سسٹم ایک ہو گیا ہے ایسے کارناموں پر سسٹم والوں کو ایوارڈ دینا چاہیے، درسی کتب اگر سرکاری اسکولوں میں دستیاب ہیں تو پھر کتابوں کی دکانوں پر رش کیوں ہے؟ انٹرنیشنل ڈونرز کو یہ حکم نامہ بھیج دیتے ہیں کہ آپ ہم پر بھروسہ کرتے ہیں لیکن یہاں صورتحال کچھ اور ہے، ہم بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن کہہ نہیں پاتے ، ججز نے کچھ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ کہہ دیا ہے لیکن ان کے کہنے سے کیا فرق پڑے گا ، اس حکومت کو تو سارا صوبہ اور پورا ملک بہت کچھ کہہ رہا ہے لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ کم از کم صحت، تعلیم اور روزگار کے معاملے میں خیال کرنا چاہیے، آخر اس معاملے پر کبھی بریک تو لگے۔ سندھ ہائی کورٹ نے سرکاری اسکولوں میں درسی کتب کی عدم فراہمی کے خلاف درخواست پر اے جی سندھ کو چیف سیکرٹری سے مشاورت کے بعد آگاہ کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ڈیپوٹیشن پر محکمہ تعلیم میں تعینات افسران کو واپس بھیجا گیا؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ حسن اکبر نے کہا کہ ڈیپوٹیشن کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ محکمہ تعلیم ایسے ہی چلانا چاہتے ہیں تو چلائیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف اپنایا کہ ڈیپوٹیشن پر تعینات 4 افسران میں سے ایک افسر گلزار ابڑو چلے گئے ہیں۔ آڈٹ اینڈ اکاونٹس سروس کے ملازم گلزار ابڑو عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ واپس وفاقی حکومت میں نہیں گئے؟ گلزار ابڑو نے کہا کہ اب کے ایم سی میں چلا گیا ہوں۔ جسٹس امجد علی سہتو نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کو اور اچھی جگہ بھیج دیا گیا ہے۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس میں کہا کہ سندھ ہے یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اے جی سندھ نے کہا کہ کوئی ڈونر چلا جائے گا تو نقصان تو ہمارا ہی ہوگا۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ حکومت کے کمالات کی وجہ سے ہی تو نقصان ہوگا۔ جسٹس امجد علی سہتو نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کا نقصان نہیں ٹیکس دہندگان شہریوں کا نقصان ہوگا۔ عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر کام کرواتے ہیں پھر ٹیکس کے پیسوں سے ان کو ادائیگی کرتے ہیں۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ کوئی پیشرفت بتاتے تو ہم اس آرڈر میں ترمیم کر دیتے ہیں۔