اسلام آباد: وفاقی حکومت کے سخت انتباہ اور سیکیورٹی اقدامات کے باوجود پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اتوار کو اسلام آباد کی جانب اپنے طے شدہ مارچ کے لیے تیار ہے۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان کی قیادت میں جماعت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ “غلامی کی زنجیروں کو توڑنے” کے لیے اس مارچ میں شامل ہوں۔
حکومت نے احتجاج روکنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جن میں سیکیورٹی فورسز کی بھاری تعیناتی، اہم شاہراہوں کی بندش، اور دارالحکومت کے گرد رکاوٹیں لگانا شامل ہے۔
وزارت داخلہ نے واضح کیا ہے کہ عدالتی احکامات کے مطابق اسلام آباد میں کسی قسم کے احتجاج یا دھرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور عوامی نظم و ضبط کو خراب کرنے کی کوشش پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔
عمران خان نے اپنے بیان میں عوام کو احتجاج کے لیے متحد ہونے کی دعوت دی ہے اور اسے آزادی اور انصاف کی تحریک قرار دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے احتجاج کی حکمت عملی
پی ٹی آئی قیادت نے اعلان کیا ہے کہ کارکن اسلام آباد پہنچنے سے قبل مختلف مقامات پر اکٹھے ہوں گے اور پھر ڈی چوک پر دھرنا دیں گے۔ حکومت کی جانب سے شہر میں داخلے کی روک تھام کے باوجود پارٹی نے اپنے احتجاج کو جاری رکھنے اور اپنے مطالبات منوانے کا عزم ظاہر کیا ہے، جن میں عمران خان کی رہائی بھی شامل ہے۔
کارواں کی اتوار کو اسلام آباد پہنچنے کی توقع ہے، جہاں پارٹی ڈی چوک پر مطالبات منوانے تک موجود رہے گی۔ علی امین گنڈا پور نے بیان دیا کہ پی ٹی آئی اپنی مشینری ساتھ لائے گی تاکہ راستے کی رکاوٹیں ہٹا کر اسلام آباد پہنچا جا سکے۔
عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے احتجاج میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم وہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ ہاؤس سے قافلوں کی نگرانی کریں گی۔
اسلام آباد میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات
احتجاج سے پہلے وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے مختلف علاقوں کو سیل کر دیا ہے۔ اس دوران ریڈ زون، سری نگر ہائی وے، جی ٹی روڈ اور ایکسپریس وے سمیت اہم راستوں پر کنٹینرز رکھ کر گزرگاہیں بند کی گئی ہیں۔
پولیس، رینجرز اور ایف سی کے اہلکار تعینات کیے گئے ہیں تاکہ ممکنہ احتجاج کو روکا جا سکے۔ پنجاب پولیس اور رینجرز کی اضافی نفری بھی حساس مقامات پر تعینات کی گئی ہے۔
عوامی نقل و حمل متاثر
راولپنڈی اور اسلام آباد میں بڑے پیمانے پر راستوں کی بندش کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ میٹرو بس سروسز بھی جزوی طور پر معطل ہیں، جبکہ سینکڑوں بس اڈے بند کر دیے گئے ہیں۔
راولپنڈی سے اسلام آباد جانے والے تمام داخلی راستے، بشمول فیض آباد انٹرچینج اور ٹی چوک، سیل کر دیے گئے ہیں، جبکہ لاہور سے اسلام آباد آنے والے موٹرویز ایم ون اور ایم ٹو بھی مختلف مقامات پر بند ہیں۔
ممکنہ دہشت گردی اور پیشگی گرفتاریاں
نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) نے پی ٹی آئی کے احتجاج پر ممکنہ دہشت گرد حملے کے خدشے کے پیش نظر سیکیورٹی مزید سخت کرنے کی ہدایت کی ہے۔
جمعہ کی رات اسلام آباد میں مختلف مقامات پر پولیس نے چھاپے مار کر درجنوں پی ٹی آئی کارکنوں کو گرفتار کیا، جن میں سابق ایم این اے نفیسہ خٹک بھی شامل ہیں۔
انٹرنیٹ سروس کی معطلی
وزارت داخلہ نے ہائی رسک علاقوں میں موبائل ڈیٹا اور انٹرنیٹ سروس کی معطلی کا عندیہ دیا ہے تاکہ سیکیورٹی انتظامات کو یقینی بنایا جا سکے، تاہم دیگر علاقوں میں سروسز جاری رہیں گی۔
احتجاجی مارچ اور حکومتی اقدامات کے باعث اسلام آباد عملی طور پر ایک قلعے میں تبدیل ہو چکا ہے، جبکہ عوام بے پناہ مشکلات کا شکار ہیں۔