دھواں دھواں تعلقات

135

شاعر نے کہا تھا

ترک تعلقات کو اک لمحہ چاہیے
لیکن تمام عمر مجھے سوچنا پڑا

گزرے وقتوںکی بات ہے جب کائنات کے گلستاں میں ترک تعلق جرم سمجھا جاتا تھا، رشتوں کے باب میں شدت احساس پائی جاتی تھی۔ اب ترک تعلق وہ المیہ نہیں جس کی ٹیس روح میں زخم کی صورت تا عمر محسوس کی جائے۔ زندگی بھر کے تعلقات ایک لمحہ میں دھواں دھواں ہو جاتے ہیں۔

کئی ماہ پہلے کی بات ہے منگنی کی ایک خوشگوار تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ جگمگاتے ستارے، کہکشاں در کہکشاں، اس گھر میں اترے ہوئے تھے۔ چمکتے قہقہوں سے روشنیاں ہنسے جارہی تھیں۔ لڑکی پری تھی، پھر بھی نہ جانے کیوں پارلر سے زینت کا اہتمام کیا گیا۔ منگیتر دیکھ دیکھ کرمسرت سے کھلا جارہا تھا۔ چنبیلی اور گلاب کے پھولوں سے فرش چھپ گیا تھا۔ دونوں بچوں کے والد والدہ شبنمی لہجوں میں آئندہ رشتہ داری کے تانے بانے بننے میں مصروف تھے۔ مہینوں دونوں خاندانوں کے مہہ وانجم ایک دوسرے میں ضم رہے پھر اچانک خبر ملی منگنی ٹوٹ گئی۔ چلیے کوئی بات نہیں۔ رشتے بنتے بگڑتے رہتے ہیں۔ مسرتیں آنسوئوں سے ہمکنار ہوتی ہی رہتی ہیں۔ لیکن یہ کیا۔ دونوں خاندان ایک دوسرے سے اس قدر بدظن، نام سننا گوارا نہیں۔ شکل دیکھنے کے روادار نہیں۔ محبت اور تعلق تھا، دونوں خاندان مل بیٹھتے تھے تودنیا جہاں کی برائیاں، غیبتیں، بہتان، الزامات۔ اب ایک ایک کو پکڑپکڑ کر بتایا جارہا کہ اس نے تمہیں یہ برا کہا، یہ کوسنے دیے، یہ گالیاں دیں۔ حجاب کھلتے چلے گئے۔ کئی مزید دوستیاں دشمنیوں میں بدل گئیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ یاد آگئے۔ عالی مرتبت کا ارشاد ہے۔

’’اپنے دوست سے دھیرے دھیرے محبت کرو یعنی اعتدال سے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کسی دن تمہاراوہ دوست مبغوض (دشمن، بغض رکھنے والا اور قابل نفرت) بن جائے۔ اور جس شخص سے تمہیں دشمنی اور بغض ہے اس کے ساتھ دشمنی اور بغض بھی دھیرے دھیرے کرو کیا پتا کہ وہ دشمن کسی دن تمہارا محبوب اور دوست بن جائے‘‘۔

اکثر انسانوں کا قصہ عجیب ہے دوستی کرنا آتی ہے اور نہ دشمنی۔ دوست ہوتے ہیں تو سراپا گیت، پھول اور چاہت، تمام کنجیاں دوست کے حوالے۔ کھانا پینا ایک ساتھ، اٹھنا بیٹھنا ایک ساتھ، تمام راز، بھید بھائو دوست کے سپرد، سوچتے ہی نہیںکیا کہنا چاہیے، کیا کہنا نہیں چاہیے۔ دشمن بنتے ہیں تو سر سے پا تک تمام بدصورت، تمام بھیانک۔ شکل دیکھنا، نام سننا گوارا نہیں۔ قطع تعلق کے پیچ وخم سے گزرتے، قطع رحمی، ناچاقی اور عداوت کے زہر ناک نشتروں کی زد پرآجاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت کے درپے، مرنے مارنے پر تیار، مقد مہ بازی کی خاک چھاننے پر مائل۔

ترک تعلقات تو کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی

خاندانی جھگڑوں اور ترک تعلقات کو سوچیں تو چند وجوہ نمایاں نظرآتی ہیں۔

پہلی وجہ: خودپسندی اور تکبر، وہ لوگ جن کی سجدہ گاہ وہ خود ہوتے ہیں، دوسروں کے لیے ایثار اور محبت سے عاری، متکبر، ہر کسی سے تعظیم اور تواضع کو اپنا حق سمجھتے، اس درجے کا سلوک نہ ہو تو ان کے دل میںگرہ پڑجاتی ہے ایسی کہ نفرت اور قطع تعلق تک پہنچ جاتی ہے۔ دوسری وجہ: دوسروںکے مزاجوں اور طبیعتوں کا فرق نہ سمجھنا۔ دوسروںکی پسند ناپسند کا احترام نہ کرنا، بس ساری دنیا میرے جیسی ہوجائے کی تمنا کرنا۔ تیسری وجہ: دوسروں کی برائی پر نظر رکھنا، اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہ آنا لیکن دوسروںکی آنکھ کے تنکے کا شہرہ کردینا۔ چوتھی وجہ: بدلہ لینے کی جستجو میں رہنا۔ سیدنا حمزہؓ عالی جناب رسالت مآبؐکے چچا اور رضاعی بھائی تھے۔ فخر موجوداتؐ کے روحانی ماحول میں داخل ہوئے تو سیدنا حمزہؓ نہ صرف آپؐ کے مددگار بلکہ محافظ بن گئے۔ غزوہ احد میں آپ اس طرح شہید کیے گئے کہ ظالموں نے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔ آپؐ نے یہ منظر دیکھا توبے تاب ہوگئے۔ انتقام کا خیال دل میں آیا ہی تھا کہ یہ آیات نازل ہوئیں: ’’اور جب تم کسی برائی کا بدلہ دینے لگو تو اس قدر بدلہ لو جتنا تم سے برا کیا گیا ہے اور اگر تم صبر کرو گے تو یہ صبر کر نے والوں کے لیے بہتر ہے‘‘۔ صبر اور معاف کردینا لوگوں کو مربوط کرتا ہے جب کہ بدلہ نسلوں کے مابین عداوت اور ترک تعلق کا باعث بنتا ہے۔ پانچویں وجہ: رسالت مآبؐ کے اس فرمان کو نظر انداز کردینا کہ ’’تم آپس میں اخوت اور محبت کا برتائو کرو لیکن لین دین، خریدو فروخت اور کاروباری معاملات پیش آئیں تو اس وقت اجنبیوں کی طرح معاملات کرو۔ معاملہ بالکل صاف، ابہام اور پیچیدگی سے پاک ہونا چاہیے۔ چھٹی وجہ: میراث کی تقسیم نہ ہونا۔ شریعت نے میراث کی تقسیم کا فوراً حکم دیا ہے۔ ساتویں وجہ: دوسروں کا مذاق اُڑانا۔ آٹھویں وجہ: وعدہ کرکے پورا نہ کرنا۔ نویں وجہ: جھوٹ بولنا۔

ترک تعلق عقل اور دین کی روح کے منافی ہے۔ ترک تعلق اپنی ذات پر خودکش حملہ ہے۔ ترک تعلق ابتداً اشتعال اور جذباتیت پر مبنی ہوتا ہے، رشتے بھلانے، ہجوم سے تنہائی میں آنے سے شروع شروع میں عافیت اور سکون کا احساس ہوتا ہے لیکن رفتہ رفتہ غیر محسوس انداز میں یہ زہر آپ کے رگ و پے میں اُترتا چلا جاتا ہے۔ ناقابل فہم سخت اور مخالفانہ رویوں کا اظہار کرتے کرتے آپ نفسیاتی امراض، ہائی بلڈ پریشر اور دوسرے پیچیدہ امراض میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بچے بچیاں جوان ہوتی ہیں تو رشتوں کے انتظار میں آنکھیں خاک ہوجاتی ہیں۔ تھک ہار کر شادی دفتروں اور غیروں کے ہاتھ منہ دیکھنے پڑتے ہیں جہاں عظیم دھوکے، گرداب اور منجدہار آپ کے منتظر ہوتے ہیں۔ یہ کتنا افسوس ناک انجام ہے۔ زندگی نیک شگون سے محروم ہو جاتی ہے۔

محبت ایسا فانوس ہے جو ہر لمحے زندگی کے راستے کو روشن رکھتا ہے۔ ترک تعلق اس فانوس کو بجھا دیتا ہے۔ زندگی اندھیروں کی راہ چل پڑتی ہے۔ دنیا آخرت صحرا کے بگولوں کے ہمراہ جہنم کی گھاٹیوں کے سفر پر نکل جاتی ہیں۔ زندگی محبت سے خوش انجام ہوتی ہے۔ محبت آپ کی دید کو حسن عطا کرتی ہے۔ فکر خوشبو اور سوچ رنگوں سے مزین ہو جاتی ہے۔ زندگی لطف سے گزرتی ہے۔ ترک تعلق سے بچییے۔ جہاں تک ممکن ہو تاویل کا سہارا لیجیے۔ لوگوں کے بارے میں خوش گوار افکار اور خوبصورت انداز سے سوچیے ورنہ ترک تعلق کی بانہوں میں سمٹیں گے تو مر جائیں گے۔