آپریشن بلوچستان میں دہشت گردی کے پی میں

140

اب سے چند روز قبل حکومت پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بلوچستان میں فوجی آپریشن کا اعلان کیا اور اس آپریشن کا مقصد پاکستان کے عوام کا تحفظ اور ملک کی ترقی کے سفر کو جاری رکھنا بتایا گیا تھا، جو باتیں یا اسباب آپریشن کے بتائے گئے تھے کم وبیش وہی اس مرتبہ بھی بتائے گئے، اور یہ باتیں ایسی ہیں کہ ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن آپریشن کے اعلان کے بعد سے کیا ہورہا ہے اس پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ 19 نومبر کو فیصلہ ہوتا ہے کہ بلوچستان میں پھر فوجی آپریشن ہوگا اس موقع پر بلوچستان کے مبینہ دہشت گرد گروہوں کے نام اور ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا حوالہ بھی دیا گیا، اس کے بعد توقع تھی کہ بلوچستان میں کوئی بڑا آپریشن شروع ہوگا کسی بڑی کامیابی کا اعلان ہوگا لیکن 20 نومبر کو بنوں چیک پوسٹ پر حملہ ہوگیا جس میں 12 سیکورٹی اہلکار جاں بحق ہوگئے، اس کارروائی میں چھے دہشت گرد بھی مارے گئے، ابھی یہ عقدہ نہیں کھلا تھا کہ آپریشن کا اعلان تو بلوچستان کے لیے ہوا اور تنظیمیں بھی بلوچستان کی بتائی گئی تھیں پھر یہ دھماکا بنوں میں کیوں کیا گیا، حملہ خودکش بتایا گیا ہے اس لیے وجہ تو فوری طور پر نہیں معلوم ہوئی، بس سب کا ذہن ٹی ٹی پی کی طرف گیا اور پاک افغان تعلقات میں مزید خرابی کے امکانات سامنے آئے۔

بنوں میں دھماکا اتفاق ہوسکتا ہے، لیکن اس ہی روز امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا اور ترجمان نے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے افغان سرحد کے قریب حملے میں 8 پاکستانی فوجیوں کی شہادت اور بنوں میں 7 پولیس اہلکاروں کے اغوا کی مذمت کی۔ میتھیو ملر نے کہا کہ پاکستانی عوام نے دہشت گردوں اور پرتشدد انتہا پسندوں کے ہاتھوں بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ ہمارے دل دہشت گردی کے حالیہ حملوں میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے خاندانوں اور پیاروں کے ساتھ دکھ میں ہیں۔ میتھیو ملر نے مزید کہا کہ پاکستانی عوام کے خلاف یہ خوفناک حملے اب بھی جاری ہیں، ہم عسکریت پسند دہشت گرد گروپوں کی طرف سے لاحق خطرات کا پتا لگانے، روک تھام کرنے اور ان کا جواب دینے کی صلاحیت پیدا کرنے کے مواقع کی نشاندہی کرنے کے لیے حکومتی رہنمائوں اور سویلین اداروں کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔ اس موقع پر نہایت خوبصورتی سے بلوچستان سے رخ افغانستان اور ٹی ٹی پی کی جانب موڑنے کی کوشش کی گئی، ایک صحافی نے پوچھا یہ اس سے یہ سوال کروایا گیا کہ یہ تمام دہشت گرد گروہ افغانستان میں مقیم ہیں اور طالبان حکومت ان کو روکنے میں ناکام رہی ہے جو کہ سرپرستی کرنے کے مترادف ہے لیکن ہم نے امریکا کی جانب سے اس پر کوئی کارروائی نہیں دیکھی۔ جس پر امریکی ترجمان نے بتایا کہ امریکی حکومت کی پاکستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی ایک اہم دوطرفہ شراکت داری جاری ہے اور اس میں اس قسم کے خطرات کا پتا لگانے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے سویلین اور فوجی دونوں صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے باقاعدہ اعلیٰ سطح مذاکرات اور ورکنگ لیول کی مشاورت شامل ہے۔ یعنی اب جو کارروائی کرنی ہوگی پاکستان ہمارے تعاون سے کرے گا۔ شاید پیغام مزید واضح کرنے کے لیے 21 نومبر کو بھی کے پی کے میں ضلع کرم میں 200 گاڑیوں کے قافلے کو نشانہ بنادیا گیا اس سانحے میں خواتین سمیت 44 لوگ جاں بحق ہوگئے۔ اس واقعے میں سیکورٹی اہلکار پہنچ نہیں سکے، اس کا الزام دھرنا روکنے کے لیے سیکورٹی فورس اسلام آباد بھیجنے والوں پر ڈالیں، یا ساری توجہ صرف بلوچستان پر دینے کی حکمت عملی پر لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں میں انٹیلی جنس کی کمی ہے۔ چومکھی لڑنے والوں کو ساری توجہ ایک محاذ پر نہیں رکھنی چاہیے، تمام اہم علاقوں پر بیک وقت توجہ ہونی چاہیے۔

اب اس پہلو پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے کہ بلوچستان آپریشن سے کس پر زد پڑ رہی تھی اور کس کو نقصان پہنچ رہا تھا لیکن دہشت گردی کے واقعات کے پی کے میں کروا کر توجہ وہاں منتقل کرادی گئی، باتیں تو سب قیاس پر مبنی ہوتی ہیں لیکن حقائق تو کسی اور چیز کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اور کرم کی شاہراہ پر حملہ تو سیکورٹی کے بارے میں سارے دعووں کی نفی کرتا ہے اس راستے کو دہشت گردی کی وجہ سے بند کیا گیا تھا اب آگے پولیس چلتی ہے پیچھے قافلے ہوتے ہیں، بہت سے سوالات ہیں کہ پولیس پر بہلے حملہ ہوا تو پولیس نے کیا جواب دیا کمک منگوائی کہ نہیں، رینجرز، فوج وغیرہ حرکت میں آئے کہ نہیں۔ اگر یہ سب نہیں ہوا تو صرف دہشت گردوں کو الزام دینے سے کام نہیں چلے گا، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جونہی آرمی چیف نے اعلان کیا کہ بلوچستان میں آپریشن میں جس نے رکاوٹ ڈالی اسے سخت سزا بھگتنا ہوگی، لیکن فوری طور پر رخ کے پی میں کرکے ایک پیغام تو یہ دیا گیا کہ ابھی ان ہی سے لڑائی جاری رکھنی ہوگی جن سے امریکا چاہتا ہے اور امریکی اہلکار کی گفتگو صحافی کا سوال اور جواب یہ سب بتا رہے ہیں کہ امریکا بہادر کو بلوچستان آپریشن پسند نہیں آیا وہ پاکستان کو افغانستان ہی سے الجھائے رکھنا چاہتا ہے۔ کچھ بھی کہا جائے، امریکا پشت پر ہے، افغان طالبان سرپرست ہیں، یا ٹی ٹی پی ذمے دار ہے، کرم کا واقعہ تو سیکورٹی کی مکمل ناکامی ہے۔ حکام کو یہ تو پتا چل گیا کہ تین جگہ سے دس لوگوں نے فائرنگ کی، لیکن فائرنگ تو چودہ کلو میٹر کے علاقے میں ہوتی رہی ساری سیکورٹی سوتی رہی۔ سوال یہ بھی ہے کہ بسیں حرکت کررہی تھیں تو چودہ کلو میٹر تک صرف دس لوگ فائرنگ کررہے تھے تو کیا حملہ آور آ رہے تھے اور متبادل راستہ کون سا تھا جس پر وہ چودہ کلو میٹر تک فائرنگ کرتے ہوئے دوڑتے جارہے تھے۔ اس قدر غیر محفوظ تو عوام کبھی نہ تھے، یہ تو سوا سو سال قبل کا حج کا سفر بن گیا جب حاجیوں کے پورے پورے قافلے کولوٹ لیا جاتا تھا کوئی تحفظ دینے والا نہیں تھا۔ تو آج کیا ہم پھر سو سال پیچھے چلے گئے ہیں۔

یہ صورتحال تقاضا کررہی ہے کہ پاکستانی اکابرین سر جوڑ کر بیٹھیں مسائل کا ادراک کریں دوست دشمن کی پہچان کریں دوستی کی حدیں بھی غلامی اور مجبوری تک نہ جانے دیں، صرف پیسے کے پیچھے نہ بھاگیں اس سے عزت بھی جاتی ہے اور پیسہ بھی نہیں ملتا، اس قدر نالائق سیکورٹی والوں کو تو کوئی ملک فنڈز، اور تربیت بھی دینے کو تیار نہ ہوگا، یہاں تو لوگوں کو بڑھکیں مار کر چپ کرادیا جاتا ہے دنیا میں اس سے صرف مذاق اڑتا ہے۔