میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطّار کے لڑکے سے دَوا لیتے ہیں
اِس شعر کا مطلب مجھے عمران خان کو سمجھانا ہرگز مقصود نہیں ہے کیونکہ وہ اِس بات کے دعوے دار ہیں کہ امریکی حکومت نے ہی اُن کا سنگھاسن چھینا تھا۔ علاوہ ازیں عمران خان اِس وقت جیل میں مقیّد ہیں جس کے باعث پریس اور میڈیا تک اُن کی رسائی براہِ راست نہیں ہے نیز یہ کہ نہ تو امریکی حکّام کی جانب سے عمران خان کی رہائی سے متعلق کوئی بیان جاری ہُوا ہے اور نہ امریکی میڈیا ہی کوئی ٹھوس خبر دے رہا ہے کہ امریکا سے عمران خان کس طرح کی اعانت چاہتے ہیں۔ خان صاحب کیا واقعی ٔ امریکی حمایت اور اعانت حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، اِس حوالے سے میں خان صاحب پر کوئی الزام لگانا پسند نہیں کروں گا۔ میرے مخاطب اِس وقت پی ٹی آئی کے کارکنان ہیں جن کے بارے میں یہ چرچا کیا جارہا ہے وہ امریکی حکمران کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اگر فی الواقعی ٔ یہ بات درست ہے تو مَیں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ اپنے قائد کے نعرے کو مسترد کرچکے ہیں۔ تنظیم سے وابسطہ عام افراد اور کارکنان مذہبی حوالے سے اِیَاکَ نَعبُدُوَ اِیَاکَ نَستَعِین کی ماہیّت سے واقفیّت شاید نہیں رکھتے ہوں گے لیکن خان صاحب کی اہلیہ تو اپنے لباس سے ایک مذہبی خاتون ضرور نظر آتی ہیں۔ میری طرح بہت سارے احباب متذکرہ اہلیہ محترمہ کے عملی مظاہر دیکھ کر اُن کو ایک مشرک خاتون سمجھنے لگے ہیں۔ مزار پر جاکر نہ صرف محترمہ نے ہی سجدے کیے تھے بلکہ خان صاحب کو بھی خاتون نے ایسا ہی عمل اختیار کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ وہ منظر میری طرح اور بھی لوگوں کی آنکھوں میں ہنوز گردش کر رہا ہے۔ کاش! کوئی محترمہ کو یہ بتلادے کہ اُن کا یہ عمل نامناسب ہے کہ سب سے بڑا مددگار تو اَللہ تعالیٰ کو قرار دیا جائے اور ہاتھ اُس کی مخلوق کے سامنے پھیلایا جائے۔
خان صاحب سے قربت رکھنے والے ایک صحافی وجاہت سعید خان اپنے وی لاگ پر خاتون کے ٹونے اور ٹوٹکے کی داستان بھی سنا چکے ہیں۔ صحافی کا کہنا ہے کہ موصوفہ کسی روز کسی ایک خاص دروازے کو مقفّل کروا دیتی ہیں اور اپنے متعلقین کو اُس خاص دروازے سے آمدو رفت نہ کرنے کا حکم دے دیتی ہیں۔ بُشریٰ بی بی سے متعلق تازہ اطلاع یہ بھی موصول ہوئی ہے کہ چوبیس نومبر کے جلوس اور جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں جِن بھی شامل ہوں گے۔ اِسلامی تعلیمات میں یہ تو پڑھنے کو ملتا ہے کہ حالت ِ جنگ میں مسلمانوں کی اعانت فرشتوں نے بھی کی تھی‘ جِنوں کی شمولیت کا یہ قصّہ آج پہلی بار سننے کو مل رہا ہے۔ عمران خان صاحب اگر فی الواقعی ٔ ایک اَللہ کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں تو وہ دیومالائی کہانی سننے اور اُس پر عمل کرنے والے عاملوں سے دُور رہنے کی کوشش کریں۔ اگر خان صاحب یہ کہتے ہیں کہ کسی کا کیا دھرا کسی کے سر نہیں ڈالا جاسکتا تو اُن کا یہ فرمانا درست تسلیم کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ وہ سیدنا ابراہیمؑ کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زوجہ کے طَور طریقوں سے لاتعلقی کا برملا اعلان کردیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ خان صاحب محترمہ سے علٰیحدگی اختیار کرلیں کیونکہ وہ ایک کلمہ گو مسلمان ہیں لیکن اُنہیں اپنی اہلیہ کو شِرک اور بدعت کے معاملے پر روک ٹوک کرتے رہنا چاہیے۔
بہرکیف! وہ لوگ جو امریکا کو اپنے مائی باپ کے درجے پر رکھتے ہیں اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ امریکا کے تِلوں میں تیل اب خشک ہوچکا ہے وہ سُود کے عوض ہمیں قرض تو دے سکتا ہے لیکن کسی طرح کی امداد اب اُس کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ وہ خود دنیا بھر کے ممالک کا مقروض ہے۔ اپریل ۲۰۲۴ء کے گوشوارے کے مطابق امریکا دیگر ممالک کو ۸ ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ ادائیگی کا ذمّہ دار ہے۔ اِس معمّے میں دلچسپی کی بات یہ ہے کہ امریکا نے یہ قرضے کسی سے مانگے نہیں ہیں، دیگر ممالک نے امریکا کو ایک محفوظ مُلک سمجھ کر ازخود وہاں اپنا سرمایہ لگا رکھے ہیں اور منافع یا سُود کی شکل میں وصول کر رہے ہیں۔ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب دیگر ممالک کے ادارے اوراُن کی کمپنیاں پاکستان میں بھی سرمایہ کاری کرتی تھیں، حکمران کی شکل میں لٹیروں نے اُنہیں یہاں سے بھگا چھوڑا ہے اور سرمایہ کاروں کو بھگانے کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دوسرے مُلکوں سے یہاں آکر لوگ کارخانے لگانا چاہتے تھے لیکن ازحد مہنگا اجازت نامہ ہونے کے باعث سرمایہ کار اپنا مُنہ موڑ کر چلے گئے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن کرنے والے ۱۸۰ ممالک میں ہمارے مُلک پاکستان کا نمبر ۱۴۰ہے۔ یہ بات لکھتے ہوئے میرا سینہ ذرا چوڑا ہوچلا ہے کہ ہم نہ تو ایک نمبر ہیں اور نہ ہمارا دس نمبر ہی ہے‘ یہ ہمارے لیے ایک بڑی خوشی کی بات ہے کہ پہلے اُسے گالی پڑے گی جو ہمارے آگے کھڑا ہوگا‘ ہماری باری تو بہت بعد میں آئے گی۔
عمران خان صاحب کے اِس نعرے نے مجھے اپنی طرف راغب کیا تھا، اُن کی ایک اور بات جو مجھے پسند ہے کہ وہ ایک دیانتدار اور سابق امیر جماعت ِ اسلامی جناب قاضی حُسین احمد مرحوم کی طرح کرپشن مخالف رہنما کے طَور پر سامنے آئے ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ کوئی گروہ قوم پرستی اور کرپشن دشمنی کا نعرہ لگاتا ہُوا سامنے آئے اور مُلک کے تمام لوگ اُس گروہ کی تائید میں اُٹھ کھڑے ہوں۔