مغرب اور امتیاز کا فہم

180

ترجمان القرآن کے نائب مدیر جناب مسلم سجاد صاحب ہمارے کرم فرماؤں میں سے تھے۔ وہ نہ صرف یہ کہ ہمیں بتاتے رہتے تھے ہمارے کالم جسارت کے علاوہ کہاں کہاں لفٹ کر کے شائع کیے جارہے ہیں بلکہ وہ ایسے بعض کالموں کی فوٹو اسٹیٹ بھی ہمیں ارسال کرتے رہتے تھے۔ کچھ سال قبل انہوں نے ایک ایسا ہی کالم ہمیں بذریعہ ڈاک روانہ کیا ہے۔ یہ کالم پنجاب کے ایک معروف دینی مدرسے کے رسالے میں شائع ہوا تھا۔ کالم کا موضوع مغربی تہذیب تھا۔ کالم پورا شائع کیا گیا تھا البتہ کالم کے ایک پہلو کے حوالے سے فٹ نوٹ بھی شامل ِ اشاعت تھا۔ آج یہی فٹ نوٹ ہمارا موضوع ہے۔ مگر فٹ نوٹ کی نوعیت کیا تھی؟

دراصل مغربی تہذیب کی بنیادوں پر گفتگو کرتے ہوئے ہم نے عرض کیا تھا کہ مغربی تہذیب سرمایہ دارانہ تہذیب کے سوا کچھ نہیں اور یہ تہذیب جن بنیادوں پر استوار ہے، ان میں سے ایک بنیاد ’’حرص‘‘ بھی ہے۔ مذکورہ بالا رسالے کے مدیر محترم نے اس پہلو پر حاشیہ لکھا اور فرمایا کہ فاروقی صاحب کا یہ خیال درست نہیں کہ حرص صرف مغربی تہذیب کا مسئلہ ہے اس لیے کہ دنیا کا کوئی معاشرہ اور کوئی قوم ایسی نہیں جو حرص سے بے نیاز ہو۔ یہ بات بادی النظر میں جتنی درست دکھائی دیتی ہے، اس سے کہیں زیادہ غلط ہے۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ حرص کا وجود ہر انسانی معاشرے میں تلاش کیا جا سکتا ہے اور اسے کسی خاص تہذیب سے وابستہ کرنا ٹھیک نہیں۔ لیکن حرص کی موجودگی اور حرص کو Systemize کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے حرص کو System یا نظام بنا دیا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ اسے مثالیہ یا Idea بتا کر عالمگیریت بھی عطا کر دی ہے۔ اس کے برعکس بہترین سے بہترین اسلامی معاشرے میں بھی حرص تلاش کی جاسکتی ہے اور صرف فرد نہیں افراد اور گروہ تک اس کے زیر اثر ہو سکتے ہیں لیکن اسے کسی بھی اسلامی معاشرے میں کبھی قدر یا Value کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا کجا یہ کہ اس کی بنیاد پر ایک پورا نظام وضع کر کے کھڑا کر دیا جائے۔

مغربی فکر کی تاریخ میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ جنسی جبلت یا Sex Instinct سگمنڈ فرائڈ کی ایجاد نہیں یہ جبلت ہمیشہ سے انسان کے ساتھ ہے لیکن فرائڈ نے زندگی کے اس اہم جزو کو کُلبنایا اور اسے ایک نظام بنا دیا۔ اس کی گمراہی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے۔ کارل مارکس نے بھی یہی کارنامہ انجام دیا۔ اس نے معاش کے دائرے کو جبلت بنا دیا اور اس کی بنیاد پر پورا نظام کھڑا کر دیا۔

جنسی اعترافات کی تاریخ بھی نئی نہیں۔ سیدنا لوطؑ کی قوم کی گمراہی بہت پرانی بات ہے لیکن یہ صرف گمراہی تھی اعتراف یا Systemization نہیں تھا اور کسی درجے میں تھا بھی تو یہ ایک ’’مقامی‘‘ صورت حال تھی لیکن جدید مغربی تہذیب نے ہم جنس پرستی کو بھی نظام بنا دیا ہے۔ احمد دیدات اہل مغرب کا یہ کہہ کر مذاق اُڑایا کرتے تھے کہ وہ گمراہی کا بھی نہایت خوب صورت نام رکھ لیتے ہیں۔ Happy and gay انگریزی کا ایک معروف محاورہ ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ’’خوش و خرم‘‘ ہے لیکن مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں مغرب کی جاہلیت ِ خالصہ، باطل ِ محض اور شجر ِ خبیث نے ہم جنس پرستوں کو gay کا خطاب دے دیا اور اب اہل مغرب اس گمراہی کو نفسیاتی، جذباتی عمرانی یہاں تک کہ جینیاتی Genetical بنیاد میں فراہم کر کے اسے زیادہ سے زیادہ مکمل نظام بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور یہ فکری حرام کاری کی انتہا ہے۔

یہ حقیقت عیاں ہے کہ مغربی فکر اور مغربی تہذیب کے چیلنجوں کا جواب صرف مذہبی شعور بالخصوص علمائے کرام ہی دے سکتے ہیں لیکن ہمارے علمائے کرام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مغرب کی فکری بنیادوں کو پوری طرح نہیں سمجھتے۔ اصولوں کی سطح پر اسلامی اور مغربی تہذیب کے امتیازات کو سمجھنا آسان ہے لیکن جزیات اور دونوں تہذیبوں کے طریقہ کار یا Method کو سمجھنا آسان نہیں۔ اسی دائرے میں بڑے بڑے لوگوں نے ٹھو کر کھائی ہے۔ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ نے مغرب کی بنیادی تنقید لکھی ہے اور اس میں بہت کامیاب رہے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ دونوں شخصیتوں نے مغرب کو براہ راست پڑھا تھا۔ مغرب کی تنقید کے حوالے سے روایتی علما پر ان دونوں شخصیتوں کی فوقیت یہیں سے برآمد ہوتی ہے۔

سلیم احمد نے محمد حسن عسکری کے فہم پر رشک کرتے ہوئے کہیں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عسکری صاحب کو یہ صلاحیت دی تھی کہ وہ بظاہر مماثل نظر آنے والے خیالات اور مظاہر کا امتیاز بھی دیکھ لیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عسکری صاحب نے فکر و فلسفے اور ادبیات کے دائرے میں بالآخر مغرب کو مکمل طور پر رد کر کے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ اس اہلیت کی اہمیت کا اندازہ صرف انہی لوگوں کو ہو سکتا ہے جنہوں نے کبھی جڑواں بچے دیکھے ہوں اور ان کے امتیاز کو پہچاتا ہو۔ جڑواں نظر آنے والے خیالات کا فرق تلاش کرنے کے لیے روحانی، نفسیاتی اور ذہنی صحت درکار ہوتی ہے اور یہ چیز دکان سے نہیں ملتی۔