وطنِ عزیز میں اس وقت سیاسی، سماجی، معاشی بحران ماضی کے مقابلے بدترین ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور عوام کے لیے ناقابلِ برداشت مہنگائی نے صورتِ حال کو پہلے ہی خراب کیا ہوا ہے، ایسے میں حکومت ہر دوسرے دن کوئی نیا بوجھ عوام پر ڈال دیتی ہے۔ شمسی توانائی کے استعمال میں اضافے کے بعد بجلی کے گرڈ صارفین پر 200 ارب روپے سے زائد کا بوجھ ڈالنا اس بات کی علامت ہے کہ حکومت عام آدمی کو ریلیف دینے کے بجائے اس کی مشکلات بڑھا رہی ہے۔ پہلے ہی بجلی کے ہوشربا نرخوں سے تنگ عوام کے لیے یہ اضافی بوجھ کسی المیے سے کم نہیں ہوگا۔ حکومت، جو بجائے مسئلے کے مستقل حل کے، بوجھ عوام پر منتقل کرنے میں ماہر ہے، اِس بار بھی گرڈ کے اضافی اخراجات سولر توانائی استعمال نہ کرنے والے صارفین پر ڈال رہی ہے۔ یہ رویہ صرف عوامی مشکلات کو بڑھا رہا ہے۔
حکومت کی ترجیحات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نہ تو اس کی شاہ خرچیاں کم ہورہی ہیں اور نہ ہی اخراجات میں دعووں کے باوجود کوئی کمی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال جاری ہے، اور عوام کے بنیادی مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ ایک ایسی قوم جو پہلے ہی بجلی، پانی اور خوراک جیسے بنیادی مسائل سے دوچار ہے، اس پر مزید مالی دباؤ ڈالنا ناقابلِ قبول ہے۔ اصل میں جو صورتِ حال ہے اس میں مجبور، بے بس اور کٹھ پتلی حکومت ہر ہر طرح سے ناکام ہوچکی ہے۔ حکومت کی توجہ عوامی مسائل کے حل کے بجائے صرف تحریک انصاف کے احتجاج اور دھرنوں کو روکنے پر مرکوز ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ 18 ماہ میں تحریک انصاف کے دھرنوں اور احتجاج سے نمٹنے پر حکومت نے 2 ارب 70 کروڑ روپے خرچ کیے۔ ان میں سے صرف گزشتہ 6 ماہ میں ایک ارب 20 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ یہ رقم ملک کے بدترین معاشی حالات میں عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ احتجاج کو روکنے کے لیے 80 کروڑ روپے، کرائے پر لیے گئے 3 ہزار کنٹینرز کے مالکان کو ادا کیے گئے، سیکورٹی اہلکاروں کی ٹرانسپورٹیشن پر 90 کروڑ روپے سے زائد خرچ ہوئے، جبکہ ڈیڑھ ارب روپے پولیس کے کھانے اور دیگر سہولتوں پر خرچ کیے گئے۔ اسی طرح ایف سی، رینجرز اور فوج کی تعیناتی پر 30 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ اس کے علاوہ سرکاری و غیر سرکاری املاک کو پہنچنے والے ایک ارب 50 کروڑ روپے کے نقصانات بھی ہیں۔ پھر ملک کی بدترین معاشی حالت میں آئی ایم ایف کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ وہ پسِ پردہ پاکستان کے خلاف عالمی ایجنڈے کے تحت بڑے ہدف کی طرف بڑھ رہے ہیں، ان کی سخت شرائط نے عوام کی زندگی مشکل ہی کی ہے، اور یہ سب ایک خاص حکمتِ عملی کے تحت اور اپنے اہداف کے مطابق ہورہا ہے۔ لوگ ملک سے مایوس ہوتے جارہے ہیں، بڑی تعداد روزانہ ملک چھوڑ رہی ہے کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہورہا ہے۔ کیونکہ مقامی ایجنٹ بھی اس عالمی کھیل کا حصہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ چیزیں جو ایک عام آدمی کو بھی سمجھ میں آرہی ہیں اور اس کا شعور بڑھ رہا ہے لیکن ریاست کے کرتا دھرتا کچھ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں حکومت کی طرف سے غیر ضروری اخراجات کم کرنے اور معیشت کو بہتر کرنے کے لیے عملی اقدامات کے بجائے صرف اپوزیشن کو کچلنے کی حکمتِ عملی نے عوامی بے چینی اور عدم اطمینان میں مزید اضافہ کیا ہے۔ مسئلہ صرف بجلی کی قیمتوں کا نہیں رہا، بلکہ اصل چیز جو اِن سب کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے وہ ریاست پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جانا ہے، اور اس کا شعور اربابِ اختیار کو نہیں ہے، بدقسمتی سے ملک کی سیاسی جماعتیں بھی اشاروں پر ناچ رہی ہیں اور کٹھ پتلی بنی ہوئی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ ملک کیسے چلے گا؟ ایک ایسا ملک جو بحران کے لاتعداد عنوانوں کے ساتھ دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ ناقابلِ برداشت مالی بوجھ، مہنگائی، بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی نے عوام کو سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ اور پھر حکومت کی بے حسی اور عوامی مسائل سے لاتعلقی نے حالات کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر اپنی ترجیحات درست نہ کیں اور عوام کے لیے ریلیف فراہم نہ کیا، تو عوامی بغاوت کا خطرہ حقیقت بن سکتا ہے۔
یہ کیفیت ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مترادف ہے۔ جب ایک بلّی کو دیوار سے لگادیں اور اس کے فرار کا کوئی راستہ نہ چھوڑا جائے تو وہ اپنے بچاؤ کے لیے حملہ آور ہوجاتی ہے، چاہے وہ کتنی ہی بے ضرر کیوں نہ ہو۔ عوام بھی ایسی ہی مزاحمت پر مجبور ہوسکتے ہیں جس دن اُن میں یہ شعور پیدا ہوگیا کہ مزاحمت و بغاوت کے بغیر اُن کی مشکلات ختم نہیں ہوں گی، اور یہی بغاوت اُن کے لیے نجات کا راستہ فراہم کرسکتی ہے۔ ریاست اور اسے چلانے والوں کے لیے یہ لمحہ فکر ہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں، حکومت توانائی اور معیشت کے شعبے میں فوری اصلاحات کرے، غیر ضروری اخراجات کم کرے، اور عوام کو اُن کی زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرے۔ بصورتِ دیگر عوام کی ناراضی اور محرومی کا یہ طوفان پاکستان کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، اور اب ریاست کے رویّے میں تبدیلی ناگزیر ہے۔