نیتن یاہو کی گرفتاری کا حکم عملی طور پر کتنا ممکن؟

217

بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے ججوں نے جمعرات کے روز اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، ان کے سابق دفاعی سربراہ گیلنٹ اور حماس کے عسکری رہنما محمد ضیف کے مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔ اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے بیان میں آئی سی سی کا کہنا تھا کہ وارنٹ میں نیتن یاہو اور یواو گیلنٹ پر بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے جنگی جرم اور غیر انسانی اقدامات، جبر، قتل سمیت انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اس میں 8اکتوبر 2023 ء سے لے کر 20 مئی 2024 ء کو وارنٹ کی درخواست موصول ہونے تک کے اقدامات شامل کیے گئے ہیں۔ عدالت نے حماس کے عسکری سربراہ محمد ضیف کی گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری کیا ہے جس میں انسانیت کے خلاف جرائم بشمول قتل، یرغمال بنانے اور جنسی تشدد کے الزامات شامل ہیں۔یہ الزامات 7اکتوبر 2023 ء کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے متعلق ہیں جس میں 46 امریکی شہریوں سمیت مبینہ طور پر اسرائیل کے 1200 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حماس نے 250 اسرائیلیوں کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔ یہ اقدام 20 مئی کو آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ حماس کے اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملوں اور غزہ میں اسرائیلی فوجی ردعمل سے منسلک مبینہ جرائم کے لیے گرفتاری کے وارنٹ طلب کریں گے۔ اس موقع پرسوال اٹھتا ہے کہ اس معاملے پر آگے کیا ہو سکتا ہے؟ اور آئی سی سی پراسیکیوٹر کے اقدام سے سفارتی تعلقات اور غزہ پر مرکوز دیگر عدالتی مقدمات کیسے متاثر ہو سکتے ہیں؟

آئی سی سی کے تمام 124 رکن ممالک عدالت کے قانون کے تحت پابند ہیں کہ اگر ایسے افراد ان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں جن کے خلاف آئی سی سی کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہوں تو وہ ملک ایسے کسی بھی فرد کو گرفتار کر کے عدالت کے حوالے کریں۔تاہم عدالت کے پاس ایسی گرفتاری کو نافذ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ عدالت کے پاس کوئی پولیس فورس نہیں ہے۔ اس لیے مشتبہ افراد کی گرفتاری رکن ریاست یا کوآپریٹو یعنی تعاون کرنے والی ریاست کے ذریعے عمل میں آنی چاہیے۔ وارنٹ کے باوجود کسی کو گرفتار نہ کرنے پر پابندیاں کلائی پر ہلکے سے سفارتی تھپڑ سے زیادہ نہیں ہیں۔ آئی سی سی کے ارکان میں یورپی یونین کے تمام ممالک، برطانیہ، کینیڈا، جاپان، برازیل اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے علاقے میں، فلسطینی علاقے اور اردن آئی سی سی کے رکن ہیں۔

اسرائیل اور امریکا اس عدالت کی رکن ریاستیں نہیں ہیں۔عدالت اسرائیلی حکام پر اپنے دائرہ اختیار کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے کہ فلسطینی علاقوں کو 2015 ء میں آئی سی سی کی ایک رکن ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ رکن ممالک کے شہریوں کے خلاف مبینہ مظالم کے جرائم اور رکن ملک کی سرزمین پر کسی بھی قومیت سے تعلق رکھنے والے کسی اور شخص کی طرف سے کیے گئے جرائم کے الزامات پر مقدمہ چلا سکتی ہے۔ عدالت کے قوانین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں قرارداد منظور کر کے ایک سال کے لیے تحقیقات یا استغاثہ کو روک سکے یا مؤخر کر سکے۔ قانون کے مطابق ایسے اقدام کی سالانہ تجدید کی جا سکتی ہے۔ وارنٹ جاری ہونے کے بعد اس میں ملوث ملک یا گرفتاری کے وارنٹ میں نامزد شخص بھی عدالت کے دائرہ اختیار یا مقدمے کے قابل قبول ہونے کو چیلنج کر سکتا ہے۔

آئی سی سی میں کسی کیس کو ناقابل قبول اس صورت میں سمجھا جا سکتا ہے جب اس کی پہلے سے ہی کسی ایسی ریاست کی طرف سے تفتیش کی جا رہی ہو یا مقدمہ چلایا جا رہا ہو جس کا مبینہ جرائم پر دائرہ اختیار ہو۔ تاہم ماضی میں عدالت نے یہ بات واضح کر رکھی ہے کہ یہ استثنا صرف اس وقت نافذ ہو سکتا ہے جب کوئی ریاست انہی لوگوں کے خلاف ایک جیسے مبینہ جرائم کی تفتیش کر رہی ہو یا مقدمہ چلا رہی ہو۔ اگر عدالت کے سامنے تفتیش میں تاخیر کی درخواست آئے تو استغاثہ کیس کو روک دے گا۔ استغاثہ اس بات کا جائزہ لے گا کہ آیا وہ ریاست جس نے التوا کی درخواست کی ہے، اس کیس کی در حقیقت تحقیقات کر رہی ہے۔ اگراستغاثہ سمجھتا ہے کہ قومی تحقیقات ناکافی ہیں تو وہ ججوں سے تفتیش کو دوبارہ کھولنے کی درخواست کر سکتا ہے۔ وارنٹ جاری ہونے کے بعد بھی ملزمان سفر کر سکتے ہیں۔ آئی سی سی کی جانب سے گرفتاری کا وارنٹ جاری ہونے کا مطلب کسی باضابطہ سفری پابندی کا نفاذ نہیں ہے۔ تاہم ملزمان اگر آئی سی سی کی رکن ریاست کی سرزمین پر سفر کرتے ہیں تو انہیں گرفتاری کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ ایسا کرنا فردِجرم کے فیصلہ سازی کو متاثر کر سکتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں، قانون سازوں یا سفارت کاروں پر ایسے افراد سے ملنے پر کوئی پابندی نہیں ہے ، جن کے خلاف آئی سی سی کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے ہوں۔ سیاسی طور پر اس طرح کرنے سے ان کے بارے میں عوامی تاثرات خراب ہو سکتے ہیں۔ وارنٹ کی درخواست دیگر معاملات پر براہ راست تو اثر انداز نہیں ہوگی لیکن شاید بالواسطہ ہو سکتی ہے۔

مثال کے طور پر آئی سی سی کی درخواست ان عدالتی کیسوں سے ہٹ کر ایک الگ معاملہ ہے جن میں اسرائیل کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح جنوبی افریقا کی جانب سے اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت، یعنی بین الاقوامی عدالت انصاف میں وہ مقدمہ بھی الگ حیثیت رکھتا ہے،جس میں اسرائیل پر غزہ میںنسل کشی کے کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس کے باوجود آئی سی سی کے ججوں کا نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا فیصلہ جنوبی افریقا کے آئی سی جے کیس کو تقویت دے سکتا ہے کیوں کہ یہ عدالت دیگر عدالتوں کے فیصلوں کو بھی دیکھتی ہے۔ وارنٹ جاری کرنے کا فیصلہ ان قانونی چیلنجوں کو بھی تقویت دے سکتا ہے جن میں کسی اور جگہ ہتھیاروں کی پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہو۔ ایسا اس لیے ممکن ہوگا کیونکہ کئی ریاستوں کے پاس ان دوسری ریاستوں کو ہتھیار فروخت کرنے کے خلاف دفعات موجود ہیں جو بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان ہتھیاروں کو استعمال کریں۔