امریکا، جاپان اور جنوبی کوریا کے روابط

402

امریکا، جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان تعلقات میں حالیہ برسوں میں ایک نئی جہت آئی ہے، خاص طور پر شمالی کوریا اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی فوجی تعاون کے تناظر میں۔ 16 نومبر 2024 کو، امریکا کے (رخصت ہوتے ہوئے) صدر جو بائیڈن، جنوبی کوریا کے صدر یون سْک یول اور جاپان کے وزیر ِ اعظم شیگیرو ایشیبا نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں شمالی کوریا اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر تنقید کی۔ اس موقع پر بائیڈن نے کہا کہ امریکا، جنوبی کوریا اور جاپان کے تعلقات ان کی سیاسی میراث کا ایک اہم حصہ ہیں، اور انہیں اْمید ہے کہ یہ تعاون مستقبل میں مزید مستحکم ہو گا۔

شیگیرو ایشیبا کی قیادت میں جاپان نے امریکا کے ساتھ تعلقات کو مرکزی حیثیت دی ہے۔ امریکا اور جاپان کے تعلقات کئی دہائیوں سے ایک مضبوط سیکورٹی اتحادی کے طور پر قائم ہیں، جس میں امریکا کی فوجی موجودگی جاپان کے لیے سیکورٹی کا اہم حصہ ہے۔ تاہم، شیگیرو کا موقف یہ ہے کہ جاپان کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔ ان کے الفاظ میں، ’’ہمیں اپنے قومی مفادات کا دفاع کرتے ہوئے اپنے عالمی کردار کو مستحکم کرنا ہوگا‘‘۔

جاپان کی پالیسی میں خود مختاری کا مسئلہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جب ہم جاپان کے حوالے سے خود مختاری کی بات کرتے ہیں، تو اس کا مطلب صرف داخلی سیاست اور معیشت میں آزادی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر اپنی آزادانہ پالیسیوں کو نافذ کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔ جاپان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ نہ صرف اپنے سیکورٹی تعلقات کو امریکا کے ساتھ مضبوط کرے، بلکہ اپنے اندرونی فیصلوں میں بھی آزادی کا تحفظ کرے، تاکہ وہ عالمی سطح پر اپنا کردار بہتر طور پر ادا کر سکے۔

شیگیرو نے امریکا کے ساتھ مضبوط سیکورٹی تعلقات کی حمایت کی ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس بات کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا ہے کہ جاپان کو عالمی سطح پر اپنی خود مختاری کو برقرار رکھتے ہوئے آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت حاصل ہو۔ اس کے باوجود، امریکا کے ساتھ اس قریبی تعلقات کا مطلب یہ بھی ہے کہ جاپان اپنی خارجہ پالیسی کے اہم فیصلوں میں امریکی مفادات کا بھی خیال رکھے گا۔

جاپان کے لیے یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کہ وہ کس طرح اپنی خود مختاری کو امریکا کے ساتھ اپنے سیکورٹی تعلقات کے ساتھ ہم آہنگ کرے گا۔ شیگیرو اور جاپان کی قیادت کو یہ معلوم ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں مضبوطی جاپان کے مفاد میں ہے، مگر وہ اس بات پر بھی توجہ دیتے ہیں کہ جاپان کی آزادی اور خود مختاری کو کسی اور ملک کے اثر سے کم نہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ شیگیرو کی قیادت نے اپنے ملک کی عالمی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے محتاط پالیسی اختیار کی ہے جو نہ صرف امریکا کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرے بلکہ جاپان کی خود مختاری اور آزادی کو بھی یقینی بنائے۔

مستقبل کے تعلقات اور ممکنہ چیلنجز: آنے والے برسوں میں جاپان کے امریکا کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔ یہ بات اہم ہوگی کہ جاپان کس طرح عالمی سطح پر اپنے مفادات کا دفاع کرتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب امریکا اور جاپان کے تعلقات مزید گہرے ہوں گے، اور عالمی سطح پر جاپان کی خود مختاری کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہوگی۔ جاپان کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات میں کوئی ایسا فیصلہ نہ کرے جو اس کی آزاد پالیسیوں کے خلاف ہو۔