خوشی یا خارش

335

غالب یاد آجاتے ہیں۔ ایک دوست کو خط میں لکھتے ہیں:

’’جیسے اچھی جورو برے خاوند کے ساتھ مرنا بھرنا اختیارکرتی ہے میرا تمہارے ساتھ وہ معاملہ ہے‘‘۔

ہمارا اور آئی ایم ایف کا معاملہ بھی یہی ہے۔ پچھلے دنوں آئی ایم ایف کا وفدگیارہ تا پندرہ نومبر پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا۔ ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ آئی ایم ایف کا وفد اکتوبر تا دسمبرکی موجودہ سہ ماہی کے لیے کچھ مزید اور ممکنہ طور پر ’’غیر مقبول اقدامات‘‘ تجویز کرسکتا ہے۔ مقبول ہوں یا غیر مقبول آئی ایم ایف کے اقدامات عوام کے لیے نا خوشگوار ہی ہوتے ہیں۔

ان جبری اقدامات کی ناخوشگواری کا حکمران اعتراف نہیں کرتے۔ خوشحالی کی نوید قرار دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ رواں سال 13 جولائی کو آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان 7 ارب ڈالر قرض پروگرام کا اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا تھا جس کا دورانیہ 37 ماہ ہوگا جب کہ 25 ستمبر کو آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری دی تھی۔ ’’آئی ایم ایف سے ہر معاہدے کی طرح اس پروگرام پر بھی معیشت کی مضبوطی، محروم طبقات کے سپورٹ پروگرام، توانائی کے بحران کے حل اور نہ جانے کن کن شعبوں کے گل وگلزار ہوجانے کے باب میں اتنے جھوٹ بولے گئے ہیں کہ آکاش وانی یاد آجاتی ہے۔ ہماری نئی نسل تو آکاش وانی کے نام سے بھی واقف نہ ہوگی۔ آکاش وانی ریڈیو ہندوستان ہے۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں آکاش وانی نے پاکستان سے متعلق بے دریغ جھوٹ بولاتھا۔ بسا اوقات بے بنیاد۔ عظیم لوک گلوکار عنایت حسین بھٹی نے ان دنوں آکاش وانی کو مخاطب کرکے کہا تھا

جھوٹ بولنی ایں جھوٹی اے آکاش وانی اے
کدی سچ وی تے بول اُڈ پُڈ جانی اے

اے برباد ہونے والی آکاش وانی تو جھوٹ بولتی ہے اور جھوٹ بول کر نظروں سے ایک دم غائب ہوجاتی ہے۔

غائب تو وہ بھاری رقوم بھی ہوجاتی ہیں جو آئی ایم ایف سے ملکی معیشت کی استواری اور مضبوطی کے نام پر لی جاتی ہیں۔ 2013 میں جب نواز شریف نے حکومت سنبھالی تھی تو ان کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے زرداری حکومت کے آئی ایم ایف سے لیے گئے قرض کے بارے میں فرمایا تھا ’’سابق حکومت نے آئی ایم ایف سے جو آٹھ ارب ڈالر قرض لیا تھا اس کا ایک پیسہ بھی قومی خزانے میں نہیں ہے‘‘۔ کسی ایسی ہی صورتحال پر احمد فواد نے کہا ہوگا۔

حاکموں کو بھیک لانے کا بہانہ مل گیا
پھر سے یہ فن آزمانے کا بہانہ مل گیا
کھل کے پھر امداد کی برسات برسے گی یہاں
رَج کے پھر یاروں کو کھانے کا بہانہ مل گیا

دیکھتے ہیںاس مرتبہ شہباز حکومت میں آئی ایم ایف کے قرضے سے ملکی معیشت کو سہارا ملتا ہے یا پھر اگلی حکومت اس حکومت کے بارے میں بھی کرپشن کے ایسے ہی الزامات کی تکرار کررہی ہوگی۔

پھر اس بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے

بیوی کی وفات پر ایک صاحب کی حالت خراب تھی۔ دھاڑیں مارمارکر رو رہے تھے۔ لیکن چند دن بعد نئی شادی رچالی۔ ولیمے کے کھانے پر ایک دوست آئے، گلے ملے اور کان میں پوچھا ’’پہلی کیسے ماری تھی؟‘‘۔ جب کوئی حکومت آئی ایم ایف کے پاس قرض لینے جاتی ہے تو آئی ایم ایف بھی یہی سوال کرتا ہے کہ حضور پہلے سے موجود معیشت کا خاتمہ کیسے کیا کہ گھرداری دوبارہ بحال کرنے، رقم کے حصول کے لیے ہمارے پاس آنا پڑا۔

سرمایہ دارانہ نظام کے نمائندہ امریکا اور مغربی ممالک ہوں یا ان کے سود خور ادارے چونکہ ان کا دولت کمانے کا واحد ذریعہ غریب اور کمزور ممالک کا استحصال اور خون چوسنا رہ گیا ہے اس لیے ضرورت مندوں پر معیشت کی بحالی کے نام پر وہ اپنا ایجنڈہ مسلط کردیتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مقروض ممالک کی معیشت صرف اس قابل رہ سکے کہ ان کے سود کی بروقت ادائیگی کرسکے لیکن اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑی نہ ہوسکے کہ ان کی گرفت ہی سے نکل جائے۔

آئی ایم ایف کے وفد کا دورہ 2025 کی پہلی سہ ماہی میں شیڈول تھا تاہم وفد غیر متوقع طور پر پاکستان آیا۔ وزارت خزانہ اور ذرائع نے بتایا آئی ایم ایف کے پاکستان مشن کے سربراہ نیتھن پورٹر نے پاکستانی حکام کے ساتھ ستمبر میں منظور شدہ 7 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پر بات چیت کی۔ آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا پاکستان بیرونی سرمایہ کاروں کو پروفیشنل ٹریٹ کرے، پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے خلیجی اور یورپی سمیت تمام ممالک کیساتھ یکساں میرٹ قائم، اسپیشل اکنامک زونز پر ورک آؤٹ کیا جائے۔ اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر سربراہوں نے بھی بات چیت میں شرکت کی۔ وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف نے سرکاری طور پر دورے کی تفصیلات جاری نہیں کیں۔ واضح رہے کہ پاکستان 1958 سے اب تک 23 آئی ایم ایف بیل آؤٹس پیکیج حاصل کر چکا ہے۔

دورے کا بنیادی ایجنڈا ملک کے مالیاتی خسارے کا جائزہ لینا تھا، جس میں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں محصولات کی وصولی میں تقریباً 190 ارب کی کمی شامل تھی جبکہ افراط زر کا مسئلہ بھی سراٹھا رہا ہے۔ وفد 2.5 بلین ڈالر کے بیرونی فنانسنگ گیپ جس کی جنوبی ایشیائی قوم کو موجودہ مالی سال کی ضرورت ہے اور جو 30 جون 2025 تک جاری رہے گا، اس پر بھی تبادلہ خیال کرے گا۔ پی آئی اے کو فروخت کرنے کی ناکام کوشش، بجلی اور گیس شعبوں کے نقصانات پر بھی بات چیت کی گئی۔

پاور سیکٹر حکام نے بھی آئی ایم ایف وفد کے ساتھ ملاقات کی اور سرکولر ڈیٹ مینجمنٹ پلان پر گفتگو کی۔ آئی ایم ایف کو بتایا گیا کہ گردشی قرضے میں 250 ارب کا اضافہ ہونا تھا، 150 ارب سے زائد رقم خصوصی سبسڈی کے ذریعے ایڈ کی جائے گی تاکہ سرکولر ڈیٹ کے اسٹاک میں اضافہ نہ ہو۔ آئی ایم ایف نے استفسار کیا ہے کہ رقم کو کہا ں سے مینج کیا جائے گا؟؟ جس پر پاور سیکٹر حکام نے بتایا ہے کہ بجلی کی ریکوریاں بہتر بنائی جائیں گی، جس پر آئی ایم ایف حکام نے رپورٹ طلب کرلی کہ ریکوری کو کیسے بہتر بنایا جائے گا؟؟ آئی ایم ایف حکام کی ایسی ہی کج بحثیوں سے جان جلتی ہے۔ پاکستانی حکام کے کسی دعوے، کسی جھوٹ پر یقین ہی نہیں کرتے۔

آئی ایم ایف کے قرضوں پر پاکستان میں خوشی اور رنج کا عجیب امتزاج دیکھنے میں آتا ہے اس شخص کی طرح جس کے دونوں بازو کٹے ہوئے تھے اور وہ جشن بہار کے موقع پر مینار پاکستان کے سبزہ زار میں اچھل کود رہا تھا۔ ایک صحافی نے پوچھا ’’آپ اس پر مسرت موقع پر بہت خوش ہیں‘‘۔ ناچنے والے نے خشمگیں نظروں سے صحافی کو دیکھا اور کہا ’’مجھے خوشی نہیں خارش ہورہی ہے‘‘۔