چراغ محبت بادِ جفا سے خاموش ہوا

354

صوفی محمد حمید کی شہادت ایک المناک سانحہ ہے، جس نے نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کا خاتمہ کیا، بلکہ ہمارے معاشرتی نظام اور اخلاقی اقدار کو بھی بے نقاب کیا، جو ہمارے معاشرتی زوال اور انسانی اقدار کی تباہی کا ایک دردناک مظہر بھی ہے، وہ ایک عظیم بزرگ شخصیت تھے جن کی زندگی کا واحد مقصد لوگوں کی فلاح و بہبود تھا مگر بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اس فلاحی اور روحانی رہنما کو وہ عزت و مقام دینے میں ناکام رہا، جس کے وہ بحقِ حقیقی مستحق تھے، ان کی خدمات اور قربانیوں کو وہ قدر نہ ملی جو ایک ایسے عظیم انسان کا حق تھا، جو اپنی زندگی دوسروں کی بھلائی کے لیے وقف کر چکے تھے، ان کی شہادت نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا ہم نے اپنے اقدار، انسانیت اور اخلاقی ذمے داریوں کو اتنا کمزورکر دیا ہے کہ ہم ایک نیک دل شخص کو بھی اپنی بے رحمی کا شکار بنا لیتے ہیں؟ صوفی محمد حمید کی شہادت اس بے حسی اور لاپروائی کا منہ بولتا ثبوت ہے جو ہمارے سیکورٹی ایجنسیوں کی غفلت اور حکمرانوں کی ناکامی کو عیاں کرتی ہے، جنہوں نے اپنی بنیادی ذمے داری یعنی عوام کے جان و مال کی حفاظت کو محض زبانی دعوئوں اور کاغذی بیانات تک محدودرکھا، یہ المیہ ان کی غفلت اور نااہلی کا ایسا بدنما دھبا ہے جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔

جب محافظ اپنی ذمے داریوں سے غافل اور حکمران اپنی کرسی کی بقا کو قوم کے خون سے زیادہ قیمتی سمجھنے لگیں، تو پھر نیک دل اور معصوم انسانوں کا خون بہنا معاشرتی زوال کا المناک باب بن جاتا ہے، ایسی بے حسی اور خودغرضی ظلم کی راہ ہموار کرتی ہے، انصاف کو روند دیتی ہے، اور انسانیت کے چہرے کو شرم و رسوائی کے دھبوں سے داغدار کر دیتی ہے، جس سے معاشرتی اعتماد اور اخلاقی اقدار دونوں تباہ ہو جاتے ہیں۔

صوفی محمد حمید، جماعت اسلامی باجوڑ کے ضلعی سیکرٹری جنرل، ایک ایسے چراغ تھے جو ہمیشہ اپنے حلقے میں لوگوں کے دکھ درد میں شریک رہتے اور ہمارے بکھرتے ہوئے معاشرے میں امید کی کرن بنے ہوئے تھے۔ ان کا قتل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ معاشرتی بگاڑ اور عدم برداشت نے ہمیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں محبت، خدمت اور انسانیت کی قدریں دم توڑ رہی ہیں، ان کی ٹارگٹ کلنگ نے ہمارے معاشرتی زوال اور سماجی خاموشی کا پردہ چاک کر دیا ہے ایک ایسا شخص جو معاشرے میں خیر و بہتری کا پیامبر بن کر آیا، جس نے اپنی تمام زندگی اقامت ِ دین اور اس کے نفاذ کی خاطر وقف کر دی، اْسے بے دردی اور سنگدلی سے شہید کر دیا گیا، اور ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، یہ خاموشی ہمیں مجرم بناتی ہے، کیونکہ ظلم کے خلاف خاموشی درحقیقت ظالم کی حمایت کے مترادف ہے، ان کا قتل اس معاشرتی بیماری کا اظہار ہے جو ہمارے اخلاقی ڈھانچے کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے، اگر ہم ان وجوہات کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیں گے اور اس کا موثر حل تلاش نہیں کریں گے، تو ہمارے معاشرے میں مزید ایسے چراغ بجھتے چلے جائیں گے، اور ہم اندھیروں کے عادی ہوتے چلے جائیں گے۔

صوفی محمد حمید کی شہادت ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ہمیں ان کی تعلیمات اور خدمات کو یاد رکھ کر ایک بہتر معاشرہ بنانے کی جدوجہد کرنی ہو گی۔ ہمیں ان کی جلائی ہوئی شمع کو روشن رکھنا ہوگا تاکہ ان کی قربانیوں کا حق ادا ہو سکے اور ہم ان اندھیروں کو شکست دے سکیں جنہوں نے ہماری بستی کو اجاڑ رکھا ہے، آخر میں میں صرف اتنا کہوں گا کہ صوفی محمد حمید کی زندگی ایک ایسی درس گاہ ہے جس سے ہم نے یہ سیکھا کہ فرد کی کامیابی کا اصل معیار نہ صرف اس کی ذاتی ترقی میں بلکہ اس کی قوم و ملت کی فلاح و بہبود میں چھپا ہوتا ہے۔ ان کی محنت، عزم اور جرأت مندی نے جماعت اسلامی کے مشن کو نئی قوت بخشی ہے، ان کی قربانیوں نے ہمیں یہ یاد دلایا کہ حقیقی کامیابی صرف دنیاوی مفاد میں نہیں بلکہ انسانی خدمت اور اخلاقی بہتری میں پوشیدہ ہے، جب ہم صوفی محمد حمید کی خدمات کو یاد کرتے ہیں، تو یہ محض ایک یادگار لمحہ نہیں بلکہ ایک مقدس عہد کی تجدید ہے، جس میں ہم اپنے دل و دماغ کو ان کے بلند معیار اور اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی رہنمائی اور قربانیاں ہمیشہ ہمارے ضمیر میں ایک روشن چراغ کی مانند جلتی رہیں گی، اور ان کے کردار کی بازگشت ہر لمحے ہمیں سچائی، دیانت اور انصاف کی راہ پر چلنے کی ترغیب دیتی رہے گی، وہ ایک آسمانی ستارے کی مانند ہیں، اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم بھی ایک دن اپنے معاشرتی فرض کو احسن طریقے سے ادا کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ ان کی مثال ایک لافانی ورثہ ہے جو وقت کے دھارے کے ساتھ مزید گہرا ہوتا جائے گا، اور ہمیں ہمیشہ ایک بہتر انسان اور ایک اچھا شہری بننے کی ترغیب دیتی رہے گی، اس دعا کے ساتھ کے پروردگار صوفی محمد حمید کی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما اور ان سے راضی ہوجا۔ آمین