دہشت گردی کا پھیلتا ناسور

126

وطن عزیز میں دہشت گردی کا ناسور ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ خطرناک صورت حال اختیار کرتا جا رہا ہے اگرچہ ملکی سلامتی کے ذمہ دار ادارے اس کے خاتمہ کے لیے ایک کے بعد دوسرا آپریشن کرنے میں مصروف ہیں ہماری مسلح افواج اور امن و امان کے ذمہ دار دیگر اداروں کے اہل کار دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائیاں مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں جان و مال کی بے پناہ قربانیاں بھی دی جا رہی ہیں مگر زمینی حقیقت یہی ہے کہ ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی… اس حقیقت کا اندازہ ان اعداد و شمار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ 2021 ء میں ہماری پاک دھرتی پر دہشت گردی کے 260 واقعات رپورٹ ہوئے اس سے اگلے برس یہ تعداد بڑھ کر 366 اور اس سے اگلے سال 527 تک جا پہنچی اور انسداد دہشت گردی کی ہماری تمام تر کوششوں اور کارروائیوں کے باوجود انتہائی تشویش ناک امر یہ ہے کہ موجودہ سال کے دوران اب تک ہم دہشت گردی کی 692 وارداتوں کا سامنا کر چکے ہیں نہایت تکلیف دہ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ان واقعات میں جانی نقصان بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس سال اب تک 1150 سے زائد افراد ان واقعات میں جان قربان کر چکے ہیں شہادتوں کی یہ تعداد 2015ء کے بعد سب سے زیادہ بتائی گئی ہے جب کہ زخمی ہونے والے سینکڑوں افراد اس کے علاوہ ہیں… شہید و زخمی ہونے والے پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد میں قومی سلامتی کے اداروں کے افسروں اور جوانوں کے علاوہ شہری آبادی کے لوگ خاصی بڑی تعداد میں شامل ہیں جس کی تازہ مثال گزشتہ روز خیبر پختونخواہ کے ضلع کرم زیریں میں سامنے آئی جہاں نا معلوم مسلح افراد نے پارہ چنار سے پشاور جانے والے گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ کر کے چھ خواتین اور بچوں سمیت 42 افراد کو شہید اور 25 کو زخمی کر دیا۔ خیبر پی کے حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے دہشت گردی کی اس کارروائی کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ پہلے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا گیا، پھر مسافر قافلوں کو دونوں اطراف سے نشانہ بنایا گیا، جن میں 200 کے قریب گاڑیاں شامل تھیں جن کو نشانہ بنایا گیا۔ عینی شاہدین اور کرم پولیس کے مطابق قافلے پر تین مختلف علاقوں میں مورچے لگا کر فائرنگ کی گئی اور کم از کم چودہ کلو میٹر کے علاقے میں قافلے پر فائرنگ ہوتی رہی، جن علاقوں میں فائرنگ ہوئی ان میں مندوری، بھکن اور اوچت شامل ہیں، عینی شاہد نصیر خان نے بتایا کہ قافلے میں شامل بچ جانے والی گاڑیاں جب ایک علاقے سے نکل کر دوسرے علاقے میں جاتیں تو پھر دوسرے علاقے میں ان پر فائرنگ کی جاتی تھی، یہ سلسلہ ان تین علاقوں تک جاری رہا، وزیر قانون خیبر پختونخوا آفتاب عالم نے ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ فائرنگ راستے میں پہاڑوں کی طرف سے ہوئی، فائرنگ کے بعد مقامی سطح پر دو گروپوں میں تنازع کھڑا ہوا، دونوں گروپ ایک دوسرے پر واقعے میں ملوث ہونے کا الزام لگا رہے ہیں، واقعے میں کوئی مقامی گروپ ملوث نہیں، دہشت گرد تنظیم کی جانب سے فائرنگ کی گئی ہے۔ ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کے مطابق حملے میں تقریباً 10 حملہ آور ملوث تھے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو رضا کار اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور امدادی کاموں کا آغاز کر دیا جبکہ پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے کر تحقیقات شروع کر دیں کسی گروپ نے مسافر گاڑیوں پر حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔ یہ واقعہ لوئر کرم کے علاقے مندروی میں اس سڑک پر پیش آیا جسے حال ہی میں کھولا گیا تھا یاد رہے کہ ضلع کرم میں ہر قسم کے سفر کیلیے پولیس سکیورٹی میں مسافر قافلوں کی صورت میں سفر کرتے ہیں، اس سے قبل 12 اکتوبر کو اپر کرم کے علاقے کوتج علیزئی میں ہوئے مسافر ویگن قافلے پر حملے کے نتیجے میں 15 افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد سے پارا چنار پشاور روڈ ہر قسم کی آمدو رفت کے لیے بند تھی۔ واقعے کے بعد وزیر داخلہ محسن نقوی نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور دہشت گردوں کے حملوں پر اظہار اتشویش کیا، دونوں رہنمائوں نے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا جبکہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے سیکیورٹی صورتحال پر مزید روابط اور اتفاق رائے پر زور دیا، وزیر اعلیٰ کے پی نے صوبائی وزیر قانون، متعلقہ ایم این اے و ایم پی اے، چیف سیکرٹری کو کرم کا دورہ کرنے کی ہدایت کی، علی امین گنڈا پور نے ہدایت کی کہ وفد کرم جاکر وہاں کے معروضی حالات کا خود جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرے، کرم میں صورتحال کو بہتر بنانے کیلیے سابقہ جرگے کو دوبارہ فعال کیا جائے، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے حملے میں جاں بحق افراد کے لواحقین کیلیے مالی امداد کا اعلان بھی کیا گیا۔ صدر آصف زرداری نے کہا کہ نہتے مسافروں پر حملہ انتہائی بزدلانہ اور انسانیت سوز عمل ہے ، شہریوں پر حملے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار پہنچایا جائے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا معصوم شہریوں کے قافلے پر حملہ حیوانیت کے مترادف ہے، ملک دشمن عناصر کی وطن عزیز کے امن کو تباہ کرنے کی تمام تر مذموم کوششوں کو ناکام بنائیں گے۔واقعہ کی تفصیلات کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی یہ کارروائی بہت منظم تھی جس کیلیے جامع منصوبہ بندی کی گئی تھی حملہ آوروں نے باقاعدہ مورچے صرف ایک جگہ نہیں، فاصلوںپر راستہ کے تین مقامات پر بنا رکھے تھے تاکہ جو لوگ ایک حملے میں جان بچا کر بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں انہیں دوسرے اور پھر تیسرے مورچے سے نشانہ بنایا جا سکے۔ انہوں نے پوری کامیابی سے اپنے منصوبے پر عمل بھی کیا اور پھر فرار بھی ہو گئے۔ یہاں توجہ طلب امر یہ ہے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے اس تمام کارروائی سے بالکل بے خبر اور لاعلم کیوں رہے جبکہ یہ علاقہ پہلے بھی اس قسم کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مرکز تھا اور ان سرگرمیوں اور در پیش خطرات کے پیش نظر یہ راستہ خود انتظامیہ نے آمدورفت کیلیے بند کر رکھا تھا اب اگر پولیس کی نگرانی میں مسافروں کے قافلوں کو گزارنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو پہلے ضروری حفاظتی انتظامات لازمی تھے کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ مسافروں کے قافلے کو گزارنے سے قبل سیکیورٹی اداروں کی ایڈوانس پارٹی راستے پر گشت کر کے اس امر کا جائزہ لیتی کہ کسی قسم کا خطرہ تو نہیں… صوبائی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ معلومات میں یہ تو بتایا گیا ہے کہ دہشت گردوں نے قافلے سے پہلے پولیس کے حفاظتی دستے پر حملہ کیا مگر اس تفصیل میں یہ بتایا جانا بھی ضروری ہے کہ پولیس نے کیا جوابی کارروائی کی اور قافلے کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کیلیے کیا حکمت عملی اختیار کی؟ اس طرح کے کئی ایک دیگر سوالات بھی جواب طلب ہیں…!صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے سانحہ کے بعد روایتی تعزیتی بیانات جاری کئے ہیں یہ حملہ یقینا ایک بزدلانہ انسانیت سوز اور حیوانیت کے مترادف کارروائی ہے مگر ان کی ذمہ داری محض بیان جاری کر دینے سے پوری نہیں ہوتی، وہ جن مناصب پر فائز ہیں ان کا یہ فرض ہے کہ عوام کے جان و مال کیلیے خطرہ بننے والے عناصر کی سرکوبی کیلیے موثر کارروائی یقینی بنائیںبہتر ہو گا کہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے حکومت سیاسی ساز باز اور مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوںکو وقتی طور پر ترک کر کے ایک ایسے ملک گیر جرگے کا اہتمام کرے جس میں ملک کے تمام سیاسی، مذہبی، سماجی رہنما اور قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے سربراہان سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلانے کیلیے تمام حقائق و واقعات پر سنجیدگی سے غور کے بعد موثر حکمت عملی اور متفقہ لائحہ عمل طے کریں اور پھر اسے فائلوں کی زینت بنائے رکھنے کی بجائے موثر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ عوام پر امن فضا میں سانس لینے کے قابل ہو سکیں۔