سوال: اپنے آس پاس بہت سی ایسی باتوں کا رواج دیکھتا ہوں جو مجھے بہت غلط لگتی ہیں اور بہت تکلیف ہوتی ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ اچھے اچھے ثقہ لوگ اتنی اہم باتوں کو کیوں نظرانداز کرتے ہیں۔ کچھ مثالیں لکھ رہا ہوں اور آپ سے رہنمائی کی توقع رکھتا ہوں۔
رسولؐ اللہ کے لیے حضور کا استعمال، اور اسی طرح آنحضور، آنحضرت، رسالت مآب، حضور انور، حضور اکرم، حضور پْرنور، حضور پاک، حضور اقدس اور کیا کیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ الفاظ نہ قرآن میں ہیں اور نہ حدیث میں۔ رسولؐ اللہ اور نبی کہنا باعثِ ثواب ہے اور باقی گناہ۔
اسی طرح ہم لفظ ’خدا‘ اللہ کے لیے بولتے ہیں اور یہ الفاظ بھی استعمال کیے جاتے ہیں: خداوند اعلیٰ، خداے رحمن، خداے بحروبر، خداے بزرگ و برتر، خداوند قدوس، اس کے علاوہ بھی بہت سے الفاظ ہیں، مثلاً خداے عزوجل، خداے لم یزل، خداے رحیم و کبیر، باری تعالیٰ، اْوپر والا وغیرہ۔
جو نام قرآن میں آتے ہیں، بس اللہ کے وہی نام ہیں۔ اس کے علاوہ استعمال کرنا گناہ ہے۔ ہمارا تو ترانہ بھی خداے ذوالجلال پر ختم ہوتا ہے۔ اسی طرح رب کو پروردگار کہنا ہے۔ رب کے معنوں سے قرآن بھرا پڑا ہے۔ لیکن ہم پروردگار کہہ کر گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
ٹی وی کے پروگرام ’صوت القرآن‘ میں مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمہ اس طرح ہے: ’’اے (اسمِ محمدؐ) آپ سے پوچھتے ہیں، اے (اسم محمدؐ) ہم نے آپ کو کوثر عطا کی۔ ’اے‘ تو تہذیب کے خلاف ہے۔ اس طرح تو بڑے چھوٹوں کو مخاطب کرتے ہیں۔ اے کرکے بلانا سخت ترین گناہ ہے۔ اسی طرح پرویز الٰہی، رحمت الٰہی جیسے نام ہیں۔ مجھے بتائیں اس کے کیا معنی ہیں؟ لوگوں نے نام ایسے رکھے ہیں جو اللہ کے صفاتی نام ہیں، مثلاً کسی کو مجید، حمید یا قدیر کہنا یا غفور کہنا جیسا کہ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے یہ کتنی غلط بات ہے۔ مجید نظامی، غفور احمد، ڈاکٹر قدیرخاں، رحمن ملک وغیرہ۔
ایک اور لفظ ’الٰہی‘ ہے جس کا بے محل استعمال اذیت کا باعث ہوتا ہے۔ الٰہی بھی ہم اللہ کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن رضاے الٰہی، قضاے الٰہی کی تکرار ہوتی ہے۔ (یہ 6 صفحات پر مشتمل سوال کی تلخیص ہے)
جواب: نبیؐ کے ایسے القاب جو اہلِ علم و فضل اور علماے دین کے ہاں مروج اور معروف ہیں ان کا استعمال کرنا جائز ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ آپؐ کے لیے ہرجگہ نبی اور رسول کا لفظ ہی استعمال کیا جائے۔ آنحضور، آنحضرت، جناب کریم یہ سب الفاظ ادب کے ہیں اور ان کا استعمال جائز ہے۔ کون سے الفاظ استعمال ہونے چاہییں اور کون سے نہیں، اس کا فیصلہ ہر آدمی نہیں کرسکتا۔ اس کا فیصلہ علما کرسکتے ہیں اور علماے کرام اور مفتیان عظام اور نیک لوگوں اور بزرگانِ دین کے ہاں ان الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح لفظ ’خدا‘ کا استعمال بھی اللہ تعالیٰ کے لیے جائز ہے اور علماے دین نے ان الفاظ کو استعمال کیا ہے۔ یہ عربی زبان کے لفظ اللہ کا ترجمہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے اسما کا ترجمہ کرنا جائز ہے، جس طرح قرآن پاک کا ترجمہ جائز ہے۔ ترجمے میں لفظ اللہ کا ترجمہ بعض مفسرین نے لفظ ’خداے‘ سے اس سبب سے کیا ہے۔
ٹی وی پروگرام ’صوت القرآن‘ میں مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ آپ کو اس پر اعتراض ہے حالانکہ ترجمے میں بعض مقامات اجتہادی ہیں۔ انھی مقامات میں سے وہ مقام بھی ہے، جن میں آپؐ کو خطاب کیا گیا ہے۔ اس میں ایک صورت یہ ہے کہ یہ کہا جائے، جیسے آپ نے ترجمہ کیا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اے محمدؐ کہہ کرخطاب کیا اور تیسری صورت وہ ہے جو مولانا فتح محمد نے اختیار کی ہے، یعنی اے (اسم محمدؐ)۔ اس سے آپ اختلاف کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں لیکن ناجائز نہیں کہہ سکتے، اس لیے کہ یہ مسئلہ اجتہادی ہے۔
الٰہی کے لفظ پر بھی آپ کا اعتراض بے جا ہے۔ الٰہی کا معنی اللہ والا ہے۔ اس لیے کہ اسلام میں الٰہ تو صرف اللہ کی ذات ہے۔ لا الٰہ الا اللہ کا یہی معنیٰ ہے۔ رہی وہ مثالیں جو آپ نے پیش کی ہیں، ان میں بعض پر ہمیں بھی اعتراض ہے۔ ان میں پرویز الٰہی کا نام بھی شامل ہے۔ پرویز کو اللہ والا کہا جاتا ہے حالانکہ پرویز نے تو نبیؐ کا نامہ مبارک پھاڑا تھا۔ اس لیے یہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے۔ ایسے بْرے آدمی کا نام کوئی رکھے گا تو خطرہ ہے، کہیں اس کی طرح نہ ہوجائے، جیسے کہ بعض لوگ آپ کے سامنے ہیں کہ وہ اسی پرویز کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ دین اور مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں اور نام بھی پرویز ہے۔ اس کے علاوہ باقی ناموں، مثلاً منظورالٰہی، رحمت الٰہی وغیرہ ناموں پر آپ کا اعتراض صحیح نہیں ہے۔
بعض لوگ بے احتیاطی کرتے ہیں۔ اصل نام کے بجاے نام کا اختصار کرتے ہیں۔ عبدالحمید کو حمید، عبدالمجید کو مجید، عبدالقیوم کو قیوم کہتے ہیں تو یہ صحیح نہیں ہے۔ لیکن جو نام اللہ کے لیے خاص نہ ہوں، ان ناموں کا دوسروں کے لیے استعمال ہو تو نامناسب ہونے کے باوجود گوارا ہے۔ اللہ اور رحمن یہ دونوں نام اللہ کے لیے خاص ہیں۔ واللہ اعلم۔