قرابت داروں پر خرچ

203

اللہ نے فرمایا: ’’ذوی القربٰی‘‘۔ اس سے مراد قرابت دار ہیں۔ قرابت دار میں والدین، بیوی، شوہر، اولاد، دادا، دادی، نانا، نانی، ماں، باپ کے بھائی، بہن اور ان کی اولادیں وغیرہ سب ہی شامل ہیں۔ اللہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے حسنِ سلوک، یعنی انفاق کے لیے ہمارے اولوا الارحام، یعنی اقربا دوسرے تمام مومنین اور مہاجرین کے مقابلے میں فوقیت رکھتے ہیں:
’’مگر کتاب اللہ کی رْو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتے دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی کرنا چاہو توکرسکتے ہو‘‘۔ (الاحزاب: 6)
والدین، ازواج اور اولاد پر مال خرچ کرنا فرائض اور ذمے داریوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے حقوق ایسے موضوعات ہیں جن پر علیحدہ علیحدہ طویل مقالے لکھے جاسکتے ہیں (ان موضوعات پر تفصیلی مطالعے کے لیے دیکھیے راقم کی کتاب تعلیماتِ قرآن، حصہ دوم، ادارہ معارف اسلامی، کراچی)۔ چونکہ ان پر مال خرچ کرنا فرائض میں شامل ہے اور عمومی طور پر انفاق میں شامل نہیں ہے اس لیے ہم یہاں ان کا مختصراً مطالعہ کریں گے۔

والدین پر خرچ: اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر جہاں بھی اپنی عبادت کا حکم دیا ہے وہاں فوراً بعد ہی والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا بھی حکم دیا ہے، مثلاً:
’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو‘‘۔ (النساء: 36)
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ہماری توجہ ان کے احسانات کی طرف بار بار دلاتا ہے کہ کس طرح تکالیف اْٹھا کر انھوں نے ہماری پرورش اور تربیت کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اْٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ اسی لیے ہم نے اس کو وصیت کی کہ میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے‘‘۔ (لقمان: 14)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ دراصل والدین کی ضروریاتِ زندگی پر مال خرچ کرنے کو اللہ نے انفاق نہیں بلکہ ان کے احسانات کا اظہارِ شکر قرار دیا ہے۔ ایک حدیث کے مطابق بھی سب سے اچھا عمل اللہ کی بندگی اختیار کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ہے اور اس کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا ہے۔ اسلام کی نظر میں والدین کا مقام یہ ہے کہ نہ صرف دنیا میں ان کے ساتھ سب سے بڑھ کر نیکی کا سلوک کیا جائے بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے حقوق باقی رہتے ہیں۔ ان کی اولاد کے لیے ضروری ہے کہ ان کے ان حقوق کو پورا کرے۔ بعداز موت بھی والدین کے جو حقوق باقی رہتے ہیں ایک حدیث کے مطابق ان حقوق میںسے ایک حق یہ ہے کہ ان کے لیے دعاے مغفرت کی جاتی رہے اور اس کے لیے اس سے اچھی دعا اور کیا ہوگی جو اللہ نے خود سکھائی ہے:
’’اور دعا کیا کر کہ پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت اور شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘‘۔ (بنی اسرائیل: 24)