غزوۂ موتہ

181

اسلام دینِ فطرت ہے۔ دنیا میں اسلام بذریعہ دعوت پھیلا ہے۔ اہلِ اسلام کا شیوہ رہا ہے کہ وہ کبھی جارحیت میں پہل نہیں کرتے۔ جب ان پر ظلم ڈھایا جائے تو پھر وہ بزدلی دکھانے کے بجائے دشمن کو سبق سکھا دیتے ہیں۔ اْمت پر زوال آیا تو ہماری ساری روایات بھی دم توڑ گئیں۔ ان روایات کو زندہ کرنا اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم قرآن پاک اور اْسوۂ نبویؐ سے رہنمائی لیں۔ نبی اکرمؐ کی پوری زندگی جدوجہد میں گزری۔ آپؐ کی ہر کاوش کلمۂ حق کی سربلندی کے لیے وقف تھی۔ آپؐ نے اپنی دعوت کو پوری دنیا تک پہنچانے کا اہتمام فرمایا۔ بادشاہوں کے نام آپؐ کے خطوط اس کی بہترین مثال ہیں۔
نبی اکرمؐ کے صحابی سیدنا حارثؓ بن عمیر آپؐ کا خط لے کر شام کے حکمران شرحبیل بن عمرو غسانی کے پاس گئے۔ شرحبیل نے خط کھولا اور جب اس کا مضمون پڑھا تو غصے سے آگ بگولا ہوگیا۔ اصولی طور پر پوری دنیا میں اس وقت جو اخلاقی اقدار رائج اور معروف تھیں، ان کے مطابق پیغام خواہ کیسا بھی ہوتا تھا، قاصد پر اس کی کوئی ذمے داری ڈالی جاتی تھی نہ اس کا مواخذہ کیا جاتا تھا۔ قاصدوں اور سفیروں کا کام تو پیغام رسانی تھا۔ ان کی جان محفوظ و مامون تصور ہوتی تھی کیونکہ اس کے بغیر نامہ و پیام کا سلسلہ منقطع ہو سکتا تھا۔ اس بدبخت حکمران نے ان تمام اخلاقی و عرفی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے، اپنے دربار ہی میں صحابی رسول کو شہید کرا دیا۔ یہ خبر نبی اکرمؐ تک پہنچی تو آپ بہت غمزدہ ہوئے۔ آپؐ نے اسی وقت فیصلہ فرمایا کہ غسانی حکمران کے اس ظلم کا بدلہ لینا اور مظلوم صحابی کے خون کو رائیگاں ہونے سے بچانا اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے۔ اسی ظلم کا بدلہ لینے کے لیے غزوہ موتہ برپا ہوئی۔

نبی اکرمؐ نے موتہ کی اس جنگ کے لیے اپنے بہترین صحابہ کو منتخب کیا اور انہیں آپؐ نے مدینہ سے تین میل باہر جْرف کے مقام پر پڑائو ڈالنے کا حکم دیا۔ ان صحابہ کی تعداد تین ہزار بیان کی گئی ہے۔ یہاں آنحضورؐ نے ان صحابہ کو شامی علاقے پر حملہ کرنے اور ظلم و خیانت کرنے والوں سے انتقام لینے کی تلقین فرمائی۔ تمام سابقہ سرایا کے برعکس اس جنگ میں نبی اکرمؐ نے کسی ایک جاں نثار کو قیادت سونپنے کے بجائے سپہ سالاروں کا انتخاب ایک نئے انداز میں کیا۔ آپؐ نے تین صحابہ زیدؓ بن حارثہ، جعفرؓ بن ابی طالب اور عبداللہؓ بن رواحہ کو ترتیب وار سپہ سالار مقرر فرمایا۔
آپؐ نے غزوۂ موتہ کے لیے لشکر کو روانہ کرنے سے پہلے ایک جامع اور ایمان افروز خطاب فرمایا۔ آپؐ کے اس خطاب کا خلاصہ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام نے جنگ کو دفعِ شر کا ذریعہ بنایا ہے، قتل و غارت گری اور کشور کشائی کبھی اس کا مقصود نہیں رہا۔ آپؐ نے حمد و ثنا کے بعد پہلی بات جو فرمائی وہ یہ تھی ’’میں تم لوگوں کو اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں‘‘۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اللہ کا نام لے کر اس کی راہ میں منکرینِ حق سے جنگ کرنا۔ جنگ کے دوران اپنے ساتھی مسلمان بھائیوں سے خیر خواہی کا اہتمام کرنا۔ جنگ کے دوران کبھی اخلاقی حدود سے تجاوز نہ کرنا، کبھی خیانت نہ کرنا اور نہ ہی کبھی بچوں کو قتل کرنا۔ جب تم اپنے دشمنوں سے ملو تو انہیں دعوت دو کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔ اگر ان کا جواب مثبت ہو تو انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچانا۔ اگر وہ ہجرت پر بھی آمادہ ہو جائیں تو انہیں بتا دینا کہ انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو سابقون کو حاصل ہیں۔ اگر وہ ہجرت پر آمادہ نہ ہوں تو بطورِ مسلمان دیگر اعراب کی طرح انہیں بھی اپنے گھروں میں رہنے کی آزادی حاصل ہوگی لیکن انہیں مالِ غنیمت میں سے کچھ نہ ملے گا۔ البتہ اگر جہاد میں شریک ہو جائیں تو مالِ غنیمت میں بھی برابر حصے دار ہوں گے۔ اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکاری ہوں تو انہیں جزیہ دینے اور اسلام کی سیاسی برتری قبول کرنے کی دعوت دینا۔ اگر وہ ایسا کرلیں تو نہ ان سے جنگ کرنا اور نہ ہی انہیں کوئی اذیت دینا۔ اس کا بھی انکار کر دیں تو آخری چارۂ کار کے طور پر اعلانِ جنگ کر کے ان سے لڑائی لڑنا۔ جنگ میں اپنی قوت پر نہیں بلکہ اللہ کی مدد پر بھروسہ رکھنا۔

اس کے بعد نبی اکرمؐ نے عام آبادیوں کے بارے میں ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: عبادت خانوں میں تم کچھ لوگوں کو مصروفِ عبادت پائو گے، ان لوگوں سے کوئی تعرض نہ کرنا۔ نہ ان کے گرجا گھروں کو نقصان پہنچانا۔ ہاں، کچھ لوگوں کے سر میں شرارت کا خناس سمایا ہوتا ہے، ایسے لوگوں پر تلوار اٹھانے کی اجازت ہے۔ کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا۔ کھیتوں، درختوں اور باغات کو تباہ نہ کرنا۔ نہ ہی گھروں اور آبادیوں کو منہدم کرنا۔
جمادی الاولیٰ 8ھ بروز جمعہ اس پاکیزہ فوج نے شام کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ نبی اکرمؐ کے ساتھ عمرۃ القضا میں اس فوج کے بیش تر سپاہی اور کمانڈر مکہ گئے تھے۔ اب سیدنا جعفرؓ کی اس تمنا کی تکمیل کا وقت آ گیا تھا جو انہوں نے حبشہ سے واپسی پر خیبر کے مقام پر آپؐ کی خدمت میں عرض کی تھی۔ سیدنا عبداللہؓ بن رواحہ آپؐ سے رخصت ہوتے وقت عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی وصیت فرما دیجیے جسے میں دل میں بٹھا لوں۔ آپؐ نے انہیں جو وصیت فرمائی اس میں پہلی ہدایت یہ تھی کہ عبداللہ جس علاقے میں تْو جا رہا ہے وہاں اللہ کے سامنے بہت کم سجدے ہوتے ہیں۔ پس تو سجدوں کی کثرت سے اپنی جیینِ نیاز کو تر رکھنا اور ہر وقت اللہ کی یاد سے دل آباد رکھنا۔ تجھے جو مطلوب ہوگا اللہ اس میں تیری مدد کرے گا۔

پھر سیدنا عبداللہؓ بن رواحہ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور تیز رفتاری سے اپنے ساتھیوں سے جا ملے۔ ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ سیدنا عبداللہؓ رخصت ہوتے ہوئے رو پڑے تھے۔ جب وجہ پوچھی گئی تو کہا کہ بخدا دنیا کی کوئی پریشانی یا شوق و محبت میرے رونے کا سبب نہیں۔ مجھے قرآن مجید کی آیت نے رلا دیا ہے، پھر سورہ مریم کی آیت نمبر 17 پڑھی: ’’تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جہنم پر وارد نہ ہو، یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پورا کرنا تیرے رب کا ذمے ہے‘‘۔ سیدنا عبداللہؓ بن رواحہ کو اس سے اگلی ہی آیت کا حوالہ دے کر تسلی دی گئی، جس میں فرمایا گیا ہے: ’’پھر ہم ان لوگوں کو بچالیں گے جو (دنیا میں) متقی تھے اور ظالموں کو اسی میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے‘‘۔

سیدنا عبداللہؓ بن رواحہ بہت فصیح و بلیغ شاعر تھے۔ اس موقع پر ان کے اشعار بھی مورخین نے نقل کیے ہیں: میں رب رحمن سے مغفرت کا طلبگار ہوں اور اس کے راستے میں ایسی ضربِ کاری کی تمنا رکھتا ہوں جو خون کی جھاگ نکال دے اور مجھے دشمن کے ہاتھوں نیزے کے ایسے زخم پسند ہیں جو قلب و جگر کے آر پار ہو جائیں اور یوں راہِ خدا میں جان کی بازی لگا کر رخصت ہو جائوں تو لوگ میری قبر کے پاس سے گزرتے ہوئے مجھے دعائیں دیں۔ پھر آپؐ کی شانِ اقدس میں نعتیہ شعر کہتے ہوئے سیدنا عبداللہؓ مدینہ کو الوداع کہہ گئے۔ مدینہ کی طرف رخ کرکے کہا: کھجوروں کے درختوں سے آباد اس شہر سے میں اس شخص سے جدا ہو کر جا رہا ہوں جو بہترین سرپرستی کرنے اور محبت بانٹنے والا ہے۔ اے اللہ! اس پر ہمیشہ اپنی سلامتی کا نزول فرمانا۔
فوج مدینہ سے روانہ ہو کر شام کی حدود میں داخل ہوئی اور موتہ کے مقام پر وہ معرکہ پیش آیا جو ہماری تاریخ کا عظیم ترین واقعہ ہے۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ دشمن نے ایک بڑا لشکر جمع کر رکھا ہے۔ اس دوران دشمن کے ایک جاسوس مسلح دستے سے مسلمانوں کا آمنا سامنا ہوگیا۔ اس میں بہت سے دشمن قتل ہوئے۔ غسانی حکمران شرحبیل بن عمرو کا بھائی بھی مقتولین میں شامل تھا۔ شرحبیل پر اس واقعے کے بعد خوف طاری ہوا اور اس نے ہرقل کے پاس اپنا تیز رفتار ایلچی بھیجا۔ ہرقل اس وقت بیت المقدس میں موجود تھا۔ ہرقل نے ایک بہت بڑا لشکر اپنے باجگزار کی حفاظت اور مدد کے لیے بھیج دیا۔ روایات میں آتا ہے کہ اس لشکر کی تعداد ایک لاکھ تھی جبکہ غسانی بادشاہ کے اپنے لشکر اور مختلف قبائل کے مسلح دستوں کی تعداد بھی بیس ہزار تھی۔ یوں مجموعی طور پر ایک لاکھ بیس ہزار کافر تین ہزار مسلمانوں کے مقابلے پر جمع ہو گئے۔ رومی فوج کی قیادت قیصرِ روم کا بھائی تھیوڈر کر رہا تھا۔
اس جنگ میں تینوں کمانڈر صحابہ شہید ہوئے۔ آخر خالدؓ بن ولید نے کمان سنبھالی اور نہایت حکمت و جرأت کے ساتھ لڑے اور اہلِ ایمان کو کامیابی سے ہم کنار کرکے بحفاظت واپس لے آئے۔ اسی جنگ میں خالدؓ کو آپؐ نے ’’سیف اللہ‘‘ کا خطاب عطا فرمایا۔
[جنگ موتہ کی تفصیلات ہماری کتاب ’’رسولِ رحمتؐ تلواروں کے سائے میں‘‘ (جلد سوم) میں دیکھی جاسکتی ہیں]