دھاندلی والے ضمنی انتخابات

363

14 نومبر کو کراچی میں پیپلز پارٹی نے سندھ حکومت کی آشیرباد کے ذریعے ایک بار ضمنی انتخابات میں وہ بدترین دھاندلی کی کہ الامان الحفیظ، اس سے قبل بلدیاتی اور قومی وصوبائی اسمبلی کے گزشتہ انتخابات میں اسی طرح کی دھاندلی اور بدمعاشی کراچی کے عوام پہلے بھی دیکھ چکے تھے لیکن اس دفعہ معمولی وارڈ کونسلر کی نشست جس پر پیپلز پارٹی بری طرح شکست کھا چکی تھی اور فارم گیارہ اور بارہ کے نتائج تمام اْمیدواروں کے پاس موجود تھے لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے لگائے ہوئے آر او نے ان نتائج کو یکسر تبدیل کر دیا اور یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کے اس اقدام سے پیپلز پارٹی کی نیک نامی کو کس طرح نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیاقت آباد ٹاؤن اور لانڈھی ٹاؤن کے گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے کلین سوئپ کیا تھا اور تمام کی تمام یوسیز میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن حالیہ ضمنی انتخابات میں سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کی مل بھگت سے بدترین دھاندلی کی گئی اور پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے، جعلی ووٹر لسٹوں کے ذریعے ٹھپے لگائے گئے۔ لیاقت آباد کے شماریاتی بلاک کوڈ 420120806 میں 9727 ووٹوں کا اندراج کیا گیا جبکہ 2017ء کے الیکشن ایکٹ کے تحت ایک شماریاتی بلاک کوڈ 1200 افراد پر مشتمل ہوتا ہے، مردم شماری 2023ء کے مطابق مذکورہ بلاک کوڈ 195 گھرانے ہیں جو 1178 افرد پر مشتمل ہے اس کے باوجود آر اوز، ڈی آر اوز اور الیکشن کمیشن کا شاخسانہ یہ ہے کہ اس بلاک کوڈ میں 9727 ووٹوں کا اندراج کیا گیا جو کہ فی گھرانہ 50 ووٹ بنتے ہیں جو کہ بے ایمانی بے ضابطگی کی انتہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے ریاستی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ایک بار پھر جمہوریت پر شب خون مارا اور جماعت اسلامی کی جیتی ہوئی نشستوں پر قبضہ کیا اور اس کے لیے ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت کو استعمال کیا گیا، آر اوز، ڈی آر اوز کے ذریعے ضمنی انتخابات کو یرغمال بنایا گیا۔

پیپلز پارٹی جو کہ جمہوریت کی بڑی دعویدار بنتی ہے آج اس کے اس عمل سے پوری دنیا اس پر تھوک رہی ہے اور کراچی کے عوام یہ بات سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنے اس مجرمانہ عمل کے ذریعے کراچی کے عوام سے انتقام لے رہی ہے۔ جماعت اسلامی نے 14 نومبر کے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی وسندھ حکومت اور صوبائی الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے بدترین دھاندلی ومینڈیٹ پر ڈاکے کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان اسلام آباد میں پٹیشن دائر کردی ہے یہ پٹیشن جماعت اسلامی کے امیدوار یوسی 7 ٹی ایم سی ماڈل ٹاون ضلع کورنگی انصار اللہ، یوسی 7 وارڈ ون ٹی ایم سی ضلع کورنگی کامران سولنگی نے جمع کرائی اور فارم 11 اور 12 سمیت تمام تحریری ثبوت بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پیش کر دیے ہیں۔ نامزد اْمیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں نے متعلقہ پولنگ اسٹیشنوں کے پریزائڈنگ افسران سے ان کے دستخط شدہ فارم 11 اور 12 حاصل کیے تھے جن کے مطابق جماعت اسلامی کے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب قرار پائے لیکن آر او آفس سے جاری شدہ ANEXA اور فارم 13 میں نتائج تبدیل کرکے پیپلز پارٹی کے امیدوار وں کو جیتا ہوا ظاہر کیا گیا۔

جماعت اسلامی کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ صوبائی الیکشن کمیشن کو دھاندلی شدہ نشستوں کے حتمی نتائج جاری کرنے سے روکا جائے۔ جماعت اسلامی اس سے قبل بھی ضمنی بلدیاتی انتخابات میں پری پول رکنگ اور الیکشن سے پہلے اور ووٹنگ کے دوران بھی الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر انتخابی بے ضابطگیوں کے بارے آگاہی فراہم کر چکی تھی لیکن اس سب کے باوجود ضمنی بلدیاتی انتخابات میں بدترین دھاندلی اور پیپلز پارٹی کی جانب سے عوامی مینڈیٹ پر قبضہ جمہوریت کی نفی ہے۔ اس عمل سے ناصرف یہ کہ پیپلز پارٹی کا اصلی چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے بلکہ اس سے گزشتہ 25 سال سے سندھ میں براجمان پیپلز پارٹی کے اقتدار میں رہنے کے اصل حقائق اور وجوہات بھی سامنے آ چکی ہیں۔ جماعت اسلامی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ضمنی بلدیاتی انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے خلاف پٹیشن دائر کر کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے سندھ بالخصوص اہل کراچی شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ ایک جانب کراچی کے عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ مہنگی بجلی بلوں کی ادائیگی کے باوجود بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں۔ کراچی کے عوام کا پانی ٹینکروں کے ذریعے کراچی ہی کے لوگوں کو بیچا جاتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام موجود نہیں اور لوگ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ چنگ چی رکشوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ کراچی کے نوجوانوں پر مکمل طور پر روزگار کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں اور کراچی کے جعلی ڈومیسائل پر بھاری رشوت کے عوض اندرون سندھ کے نوجوانوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے اور لوٹ مار کا ایک بازار گرم ہے۔ کراچی کا نوجوان مکمل طور پر اپنے مستقبل سے مایوس ہوچکا ہے اور اسے اب اس ملک میں تاریکی کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ بدامنی لوٹ مار قتل وغارت گری اسٹریٹ کرائمز میں مستقل اضافہ ہورہا ہے۔ سندھ حکومت مکمل طور پر قیام امن کے نفاذ میں ناکام ہوچکی ہے۔ جس کے باعث کراچی کا تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان روزانہ کی بنیاد سیکڑوں کی تعداد میں اپنے روزگار کے لیے بیرون ممالک جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بے حس حکمراں چاہے ان کا تعلق وفاق سے ہو یا پھر صوبے سے انہیں اہل کراچی کی کوئی پروا بھی نہیں ہے۔

سندھ حکومت کو 97 فی صد حصہ ریونیو کی شکل میں کراچی ادا کرتا ہے لیکن سندھ کے ظالم وڈیرے جاگیر دار اہل کراچی کو نہ پانی دینے کو تیار ہیں نہ بجلی اور نہ ہی گیس، تعلیم، صحت، روزگار اور نہ ہی امن اب تو وہ ان کے بنیادی حق ووٹ پر بھی قابض ہوگئے ہیں اور ریاستی طاقت کے بل بوتے پر جمہوری حق ہر ڈاکہ ڈال رہے ہیں اور اہل کراچی کو مکمل طور پر دیوار سے لگا کر لسانی قوتوں کے عزائم کو تقویت پہنچائی جارہی ہے اور مشرقی پاکستان والا کھیل کراچی میں بھی شروع ہوگیا ہے جس کے نتائج بہت ہی خطرناک نظر آرہے ہیں۔ ایک معمولی وارڈ کونسلر کی نشست کے حصول کے لیے جس طرح سے دھاندلی کی گئی وہ ایک آر او، ڈی آر او یا ڈپٹی کمشنر کا کام نہیں ہے بلکہ ان میں اتنا دم ہی نہیں ہے اس سارے کام کے پیچھے وہی خفیہ ہاتھ ہے جس نے بنگلا دیش بنانے کے لیے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی فتح کو قبول نہیں کیا اور اپنے اقتدار کے لیے ملک کو دولخت کروا دیا۔