تحریک انصاف والوںکو کون سمجھائے کہ:
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
امریکیوں سے دھڑا دھڑ خط لکھوا کر وہ اپنی حالت کے بدلنے کا خیال کررہے ہیں حالانکہ امریکی اپنے علاوہ کسی کی حالت اور حالات بدلنے پر یقین نہیں رکھتے۔ امریکیوں سے اچھی توقع رکھنے کے لیے ایک ہی چیز ضروری ہے، بری یاداشت۔
اگرچہ امریکا میں جاکر بندہ کان نمک ہو جاتا ہے لیکن شاباش ہے امریکا میں تحریک انصاف کے سپورٹرز کو جن کی لابنگ کی زبردست صلاحیت نے ایک مرتبہ پھر 46 اراکین کانگریس کو مجبور کردیا کہ وہ صدر بائیڈن کو عمران خان اور دیگر قیدیوں کی رہائی کے لیے خط لکھیں۔ گزشتہ ماہ اکتوبر کے آخری ہفتے میں صدر بائیڈن کو جو خط لکھا گیا تھا اس پر دستخط کرنے والے ارکان کانگریس کی تعداد 62 تھی۔ یہ عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی کانگریس کے ارکان کی طرف سے پہلی ’’اجتماعی کال‘‘ تھی۔ صدر بائیڈن نے حسب ٹیلی فونک روایت عمران خان کے بارے میں ان دونوں خطوط کا جواب نہیں دیا۔ ممکن ہے اب تیسرا خط لکھا جائے جس میں درج ہو:
کوئی اس کا جواب دو صاحب
سائلوں کا ثواب لو صاحب
اس خطوط بازی میں برطانوی پارلیمنٹیرینز بھی شامل ہوگئے ہیں۔ ایک ماہ پہلے بیس برطانوی اراکین پارلیمنٹ بھی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی کو ایسا ہی خط تحریرکر چکے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی قسمت کا فیصلہ ممکنہ طور پر فوجی عدالت کرے گی جو ایک تشویشناک اور غیرقانونی عمل ہوگا۔ اس خط کے جواب میں برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا تھا کہ پاکستانی حکام کی جانب سے اس بات کے کوئی حالیہ اشارے نہیں ملے ہیں کہ وہ سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
پہلے خط میں 60 سے زائد ارکان کانگریس نے عمران خان کی گرفتاری پر ناراضی کا اظہارکیا تھا تاہم اس مرتبہ تعداد کم رہی۔ ممکن ہے ادائیگیوں کا مسئلہ ہو۔ بغیر ڈالر کی بر وقت ادائیگی کے مغرب میں یارانے زیادہ عرصے نہیں چلتے۔ دوسرے خط میں خاص بات یہ ہے کہ یہ محض خانہ پری کے لیے نہیں ہے۔ خط میں محض انسانی حقوق کی بات نہیں کی گئی ہے بلکہ عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس دعوے کے لیے کوئی ثبوت یا دلیل نہیں دی گئی۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ ثبوت یا دلیل دینے کی ضرورت وہاں محسوس نہیں کی جاتی جہاں معاملہ دھونس دھاندلی سے نکالنے کا ہو۔ معروف شاعر عبدالعزیز خالد دوران گفتگو علامہ اقبال کے ساتھ اپنے اتفاقات کے علاوہ اختلافات کا ذکر بھی بڑی شدت کے ساتھ کیا کرتے تھے جو ان کے ایک کلرک کو سخت ناگوار گزرتا تھا مگر وہ ان کے سامنے دم نہیں مار سکتا تھا کیونکہ خالد صاحب جتنے بڑے اس کے افسر تھے اس سے بڑے عالم تھے۔ وہ ان کی مدلل گفتگو سنتا اور خون کے گھونٹ پیتا تھا کیونکہ اس جاہل عاشق کے پاس اتنے بڑے عالم کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ایک روز لوگوں نے دیکھا کہ یہ کلرک اپنے ساتھ ایک صاحب کو لے کر خالد صاحب کے دفتر میں داخل ہورہا ہے۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ یہ صاحب خالد صاحب کے علامہ اقبال پر اعتراضات کا جواب دیں گے۔ ایک صاحب نے کہا ’’تم اسے خالد صاحب سے ٹکرانے لے جارہے ہو یہ صاحب کچھ پڑھے لکھے بھی ہیں یا نہیں‘‘ جواب میں وہ بولا ’’بہت عالم فاضل ہیں۔ ایک ادبی محفل میں کسی شخص کے اقبال پر اعتراض کے جواب میں انہوں نے ایسا جواب دیا کہ وہ بول نہیں سکے‘‘ وہ صاحب اس پر متجسس ہوئے اور پو چھا ’’ان صاحب نے جواب میں کیا کہا تھا‘‘ اقبال کے اس عاشق نے کہا ’’انہوں نے جواب میں کہا تھا: میں تمہیں اٹھا کر کمرے سے باہر پھینک دوں گا‘‘۔
خط میں دوسری بات جو پہلی مرتبہ کہی گئی ہے وہ یہ کہ عمران خان کی گرفتاری کو انسانی حقوق اور تحریر وتقریر کی آزادی کے خلاف ’’الارمنگ سچویشن‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے والے خط میں مدعا کو غازے کی دبیز تہوں میں دبانے کی کوشش کی گئی تھی جب کہ اس خط میںبغیر کسی ہنر مندی کے پاکستان کے معاملات میں براہ راست مداخلت کی گئی ہے۔ اس کے جواب میں سیکرٹری خارجہ کا جواب تھا کہ ’’اگرچہ پاکستان کا عدالتی نظام اس کا داخلی معاملہ ہے لیکن ہم بہت واضح رہے ہیں کہ پاکستانی حکام کو اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے مطابق اور بنیادی انسانی آزادیوں کے احترام کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت پر زور دیں، جس میں منصفانہ ٹرائل کا حق، مناسب طریقہ کار اور حراست جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس کا اطلاق عمران خان پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ پاکستان کے تمام شہریوں پر ہوتا ہے۔
امریکا میں کوئی چیز اتنی پائیدار نہیں جتنی ری پبلکنز اور ڈیمو ریٹس کے اختلافات۔ اگر وقت بھی پوچھا جائے تو دونوں جماعتوں کے سپورٹرز مختلف جواب دیں گے۔ بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی اس پالیسی سے یکسر مختلف تھی جس کی ٹرمپ انتظامیہ سے توقع کی جارہی ہے۔ صدر بائیڈن اپنے دور اقتدار میں عمران خان کو ایک فضول اور گڑ بڑ آدمی سمجھتے رہے جس سے وہ ٹیلی فون پر بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں پی ٹی آئی کے سپورٹرز کو یقین ہے کہ انہیں اپنے والد کا نام پتا ہو یا نہ ہو لیکن عمران خان کے بارے میں ضرور یاد ہوگا۔
پروین شاکر نے کہا تھا:
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں
2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ جب صدر تھے وزیراعظم عمران خان کی ان سے وائٹ ہائوس میں ملاقات ہوئی تھی۔ یہ ملاقات انتہائی خوشگوار رہی تھی جس میں صدر ٹرمپ نے عمران خان کو میرے اچھے دوست کہا تھا۔ صدر ٹرمپ باتوں کے استرے سے مونڈنے کے ماہر ہیں ورنہ سب جانتے ہیں چند لمحوں کی ایک ملاقات میں کوئی کسی کا دوست نہیں بن سکتا لیکن دو گھڑی کی اس چاہت کو پی ٹی آئی والوں نے دل کا آزار بنا لیا ہے حالانکہ اس مدت میں تو کچی عمر کی لڑکیاں نہیں کھلتیں چہ جائیکہ صدر ٹرمپ جیسا ہو شیار، مکار اور جہاں دیدہ لوفر۔