مظلوم مسلمانوں کی حمایت سے گریز

520

پاک فوج کے سربراہ سید، حافظ جنرل عاصم منیر نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ہم کسی عالمی تنازع کا حصہ نہیں بنیں گے۔ مگر دنیا میں امن و استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

اگرچہ جنرل عاصم منیر نے صاف طور پر یہ نہیں کہا ہے کہ ہم غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی مدد کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے مگر ان کی گفتگو کے سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ غزہ کے تنازع کی جانب ہے اور انہوں نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ہم فلسطینیوں کی مدد کرتے رہیں گے مگر تنازع میں فریق کا کردار ادا نہیں کریں گے۔ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکمرانوں کو دیکھ کر ہمیں اکثر میر کا شعر یاد آجاتا ہے۔ میر نے کہا ہے۔

میر کے دین و مذہب کو تم پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا

جنرل عاصم منیر نے اپنی تقریر میں میر کا یہ شعر تو نہیں پڑھا مگر انہوں نے جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہی ہے کہ غزہ کے تمام مسلمان چاہے فنا ہوجائیں مگر ہمارے کان پر جوں رینگ کر نہیں دے گی۔ یہ بات اس لیے حیرت انگیز ہے کہ جنرل عاصم منیر صرف جرنیل نہیں ہیں۔ وہ خیر سے ’’سیّد‘‘ بھی ہیں اور ’’حافظ قرآن‘‘ بھی۔ چنانچہ انہیں کروڑوں مسلمانوں سے بہتر طریقے سے یہ معلوم ہوگا کہ قرآن و حدیث میں مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے کیا ہدایات ملتی ہیں۔ مثلاً قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا فرما‘‘۔ (سورئہ نساء: 75)

ایک اور مقام پر ارشادِ خداوندی ہے۔

’’تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے خالص ہو جائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پردست درازی روا نہیں‘‘۔ (سورئہ بقرہ: 192)

احادیث مبارکہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ احادیث میں مسلمانوں کو مظلوموں کی مدد کے لیے تواتر کے ساتھ ہدایات دی گئی ہیں۔ مثلاً رسول اکرمؐ نے فرمایا:

’’اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم اس کی مدد کرسکتے ہیں جب وہ مظلوم ہو مگر جب وہ ظالم ہو تو ہم اس کی مدد کیسے کرسکتے ہیں؟ رسول اللہ نے فرمایا۔ ظلم کرنے سے روک کر اس کی مدد کرو‘‘۔ (بخاری)

ایک اور حدیث پاک میں رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’بیشک جب لوگ کسی ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن اسے ظلم کرنے سے نہیں روکتے تو امکان ہے کہ اللہ ان سب کو عذاب دے گا‘‘۔ (ابودائود، ترمذی)

برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اگر دلّی اور یوپی کے مسلمان ضرورت کے وقت پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے مسلمانوں کی مدد نہ کرتے تو پاکستان کبھی وجود میں نہیں آسکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دلی، یوپی اور بنگال کے مسلمان برصغیر کے مسلمانوں کے اجتماعی شعور کا نقطہ ٔ عروج تھے۔ چنانچہ پاکستان پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں بن رہا تھا اور تحریک پاکستان دلی اور یوپی میں چل رہی تھی۔ جنرل عاصم منیر کو معلوم ہی ہوگا کہ 1906 سے 1946 تک برصغیر کے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کی تحریک میں پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان کہیں موجود نہیں تھا۔ مسلم لیگ ڈھاکا میں 1906ء میں قائم ہوئی اور اس کا صدر دفتر یا ہیڈ کوارٹر لاہور، پشاور، کراچی یا کوئٹہ میں نہیں تھا اس کا صدر دفتر یا ہیڈ کوارٹر یوپی کے دارالحکومت لکھنو میں تھا۔ اقبال کو الگ مسلم ریاست کا خیال آیا تو انہوں نے اس خیال کو لاہور، کراچی، پشاور یا کوئٹہ کے کسی اجلاس یا سیمینار میں پیش نہیں کیا۔ یہ خیال انہوں نے یوپی کے شہر الٰہ آباد میں ایک خطبہ ارشاد کرتے ہوئے پیش کیا۔ اقبال کے سات فلسفیانہ خطبات مشہور زمانہ ہیں مگر یہ خطبات بھی لاہور، ملتان، سیالکوٹ، کراچی، پشاور یا کوئٹہ میں پیش نہیں کیے گئے یہ خطبات بھی مدراس، علی گڑھ اور حیدر آباد دکن میں ارشاد کیے گئے۔ تحریک پاکستان چل رہی تھی اور 1946 تک پنجاب انگریزوں کی ایجنٹ یونینسٹ پارٹی کے قبضے میں تھا۔ کے پی کے پر سرحدی گاندھی یا کانگریس کے اتحادی غفار خان کا قبضہ تھا۔ بلوچستان قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کی گفت و شنید سے پاکستان کا حصہ بنا۔ البتہ سندھ کی اسمبلی نے 1943 میں پاکستان کے حق میں ایک قرارداد ضرور منظور کی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان برصغیر کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے بنایا۔ حالانکہ ان مسلمانوں کو معلوم تھا کہ وہ کبھی پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے۔ دیکھا جائے تو آج بھارت کے مسلمان جس کربناک صورت حال سے دوچار ہیں وہ ان کے ’’پروپاکستان‘‘ ہونے کا نتیجہ ہے۔ سید عاصم منیر نے کہنے کو تو کہہ دیا کہ وہ کسی عالمی تنازع کا حصہ نہیں بنیں گے مگر یہ بات اقبال اور قائداعظم کی فکر سے بھی متصادم ہے۔ اقبال نے صاف کہا ہے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشعر
٭٭
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی

جہاں تک قائداعظم کا تعلق ہے تو انہوں نے 1940ء کی دہائی میں فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی اور فرمایا کہ اگر ہمیں فلسطینیوں کی مدد کے لیے ’’تشدد‘‘ سے بھی کام لینا پڑا تو ضرور لیں گے۔ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں سے قائداعظم کا ایسا جذباتی تعلق تھا کہ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کو خبردار کرتے ہوئے صاف کہا تھا کہ اگر ہندوستان نے اپنی مسلم اقلیت کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا تو پاکستان ہندوستان میں ’’مداخلت‘‘ کرے گا۔ ظاہر ہے کہ ’’مداخلت‘‘ بیانات کے ذریعے نہیں ہوتی۔ مداخلت سے یہاں قائداعظم کی مراد ’’فوجی مداخلت‘‘ سے تھی۔ آج فلسطین میں 50 ہزار مسلمان عورتیں اور بچے شہید ہوچکے ہیں۔ 80 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ غزہ پورے کا پورا ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ مگر جنرل عاصم منیر سمیت مسلم دنیا کا کوئی رہنما اور کوئی ملک غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے تیار نہیں۔ یہاں تک کہ کوئی مسلم رہنما اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا اور یورپ کے خلاف ایک زور دار بیان دینے پر بھی آمادہ نہیں۔

خیر جہاں تک پاکستان کے جرنیلوں کا تعلق ہے تو انہوں نے مشکل حالات میں اپنے اتحادیوں تک کو ’’ترک‘‘ کیا ہے۔ انہیں تنہا چھوڑا ہے۔ 1970ء کے بحران میں البدر اور الشمس نے کھل کر پاک فوج کا ساتھ دیا مگر جب البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو بچانے کا مرحلہ آیا تو پاک فوج نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈال کر خود کو ’’جنگی قیدی‘‘ کی حیثیت سے ’’محفوظ‘‘ کرلیا اور البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو مکتی باہنی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جس نے چن چن کر البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو شہید کیا۔ 1970ء کے بحران میں بہاریوں نے بھی کھل کر پاک فوج کا ساتھ دیا مگر فوج نے انہیں بھی بے یارومددگار چھوڑ دیا اور لاکھوں بہاری آج تک بنگلادیش کے کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ پاکستانی جرنیل تھے جنہوں نے کشمیریوں کو ہتھیار اٹھانے پر مائل کیا۔ انہوں نے کشمیریوں سے کہا کہ اگر آپ اپنی تحریک کو تحرّک کی ایک بلند سطح پر لے آئیں گے تو پاکستان عملاً آپ کی مدد کرے گا۔ جب کشمیریوں نے ہدف حاصل کرلیا اور پاکستان سے مدد مانگی تو جرنیلوں نے کہہ دیا کہ ہم کشمیر کے لیے پاکستان کو دائو پر نہیں لگا سکتے۔ یہ پاکستانی جرنیل تھے جنہوں نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے یہ کہہ کر تسلیم کرایا کہ طالبان ’’ہمارے بچے‘‘ ہیں مگر نائن الیون کے بعد جنرل پرویز نے ’’اپنے بچوں‘‘ کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کردیا اور ان کے اپنے اعتراف کے مطابق اس عمل سے لاکھوں ڈالر کمائے۔ یہ امر بھی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان کے جرنیلوں نے بھارتی پنجاب میں سکھوں کی تحریک کو کھڑا کیا اور پھر خود ہی سکھوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کرکے سکھوں کی تحریک کا بھٹہ بٹھادیا۔