پیپلز پارٹی ہمیشہ سے ووٹوں کی ڈاکو رہی ہے

91

پیپلز پارٹی سندھ میں ہمیشہ سے ووٹوں کی ڈاکہ زنی کرتی چلی آرہی ہے اسی طرح اس نے شہری علاقوں میں ووٹوں کی لوٹ مار کا وتیرہ اختیار کیا ہوا ہے۔ اس نے دھاندلی کر کے پچھلے تمام انتخابات میں سندھ کی قومی اسمبلی اور صوبائی حکومتوں میں اپنا غاصبانہ تسلط قائم کیا ہے۔ پچھلے سال بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو دھندلی سے تبدیل کرکے اپنے جیالے کو میئر بنوایا تھا، اب پھر انتخابات میں وہی وتیرہ اختیار کر کے اپنی دھاندلی کی روایت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی جس طرح ایم کیو ایم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے کراچی میں دہشت گردی کو فروغ دیا اسی طرح پیپلز پارٹی نے ملک میں اور صوبہ سندھ میں بالخصوص معاشی دہشت گردی کو عام کیا۔ فرق یہ ہے کہ اس نے صوبہ سندھ میں اپنے ساتھ وڈیروں کو بھر پور استعمال کیا اور کچھ اردو اسپیکنگ کو بھی شامل کیا۔ آصف زرداری نے اپنی جماعت کو سندھ کی حد تک صرف ایک لسانی جماعت کی حیثیت سے فروغ دیا۔

پچھلے الیکشن میں تو مہاجروں نے ایم کیو ایم کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا جب کہ آصف زرداری نے فوج کے بارے میں یہ بیان دیا کہ ’’ہم ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘، تو سندھی وڈیرے اس کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ جواب میں جب اس کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا تو اس نے فوج سے فوراً مفاہمت کرلی۔ سب سے پہلے تو بلوچستان میں نواز لیگ کی حکومت گروا کر سینیٹ کا چیئرمین فوج کی مرضی کا بنوایا پھر جب اس کے خلاف تمام جماعتوں نے عدم اعتماد کی تحریک چلائی تو پھر آصف زرداری نے خاموشی سے فوج کی حمایت کر کے اس تحریک کو ناکام بنایا۔ اس طرح اپنی کرپشن کو بچا کر تمام توپوں کا رخ مہاجروں کی طرف کروانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جھوٹوں کا بادشاہ ہے۔ اس کے جھوٹ میں اس کے تمام ساتھی اس کی ہم نوائی کرتے ہیں۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کو بھی ایم کیو ایم کی طرح ایک لسانی پارٹی میں شمار کیا جاتا ہے لیکن جھوٹے پروپیگنڈے میں قومی پارٹی ہے یوں تو بڑے بڑے لوگ جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں بلکہ جو لوگ جتنے با اختیار اور زیادہ عقل مند ہوتے ہیں اتنا ہی بڑا جھوٹ بولتے ہیں۔ جس طرح جنرل جیلانی کی حکومت میں نواز شریف کو نور جہاں کی سفارش پر وزیر بنایا گیا تھا اسی طرح بیگم ناہید اسکندر مرزا کی سفارش پر نصرت بھٹو نے نوجوان ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اقتدار کے زینے پر بھٹو کا پہلا قدم جس کا انجام آج کل حاکم علی زرداری کے وارث آصف علی زرداری ہے جس نے بھٹو کی پیپلز پارٹی پر آج کل اپنی گرفت مضبوط کر رکھی ہے۔ سیاست کے میدان میں قربانیاں ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے دی اس قربانی کا پھل بلاول زرداری اور بخت آور آصفہ کی صورت آصف زرداری کی جھولی میں آن گرا۔ آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی نے سندھ کے شہری علاقوں کے لوگوں کے ساتھ جو کھلم کھلا سلوک کیا۔ آج کے شہری معاشرے کی ابتر حالت سب کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے ذوالفقار علی بھٹو نے سندھی عوام کی خاطر قربانیاں دیں اس کا مقام آج سندھ کے عام لوگوں میں سب سے زیادہ عزت کا حامل ہے اسی طرح بے نظیر نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے جو خدمات پیش کیں اس کا ازالہ سندھی عوام نے ان کے نام پر چوروں لٹیروں کو ووٹ دے کر کیا مگر بھٹو کی پھانسی کے وقت ان کے لیڈر یا تو شادیاں رچا رہے تھے یا خاموشی سے اپنے اپنے اوطاقوں میں دبکے بیٹھے تھے اسی طرح بینظیرکے 27 دسمبر کے موقع پر جاں بحق ہونے پر اندرون سندھ معمولی لوٹ مار کے سوا کوئی بڑا احتجاج سامنے نہیں آیا۔ جب کہ سندھ کے شہری علاقوں میں زیادہ بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات پیش آئے تو اس موقع پر آصف علی زرداری نے بے نظیر کے متنازع وصیت نامے کا سہارا لے کر اور پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ملک کی صدارتی کرسی کا سودا کیا۔ اسی طرح گزشتہ پندرہ سال میں اندرون سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کے مزار کے ساتھ ساتھ بے نظیر کا خوبصورت مقبرہ اور آصف علی زرداری کے قریبی دوستوں، وڈیروں کے عالی شان گھروں اور محلوں کے علاوہ ان کی جاگیروں پر کام کرتے ہوئے ہاریوں کے حالات زندگی کو دیکھ کر موہنجودڑوکے آثار بھی ان سے بہتر دکھائی دیتے ہیں۔ اگر اندرون سندھ کے رہنے والے سندھی باشندے بھٹو کی پھانسی کے وقت یا بے نظیر کے راولپنڈی میں جاں بحق ہونے پر اس ہی طرح اپنا خون بہا دیتے تو ان کی حالات میں شاید بہتری آجاتی۔

مہاجر عوام ووٹ کے ساتھ نوٹ دیتے رہے ہیں اور اس پر تقریباً بیس ہزار لوگ خون کا نذرانہ پیش کرتے رہے اپنی تین نسلوں کی قربانی دے کر تاریخ کے اندھیروں میں گم ہوتے جارہے ہیں۔ اگر یہی قربانی سندھی زبان بولنے والوں نے بھٹو اور بے نظیر کی خاطر دی ہوئی تو شاید وہ بھی جدید دنیا کی سہولتوں سے فیض یاب ہو رہے ہوتے لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی بیٹی کے نصیب میں ایسی قوم نہیں تھی جو کہ اپنے لیڈر کی خاطر اس کے حکم پر اپنی تین نسلوں کی قربانی کے ساتھ 20 ہزار نوجوانوں کی قربانیاں اور ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دے جیسا کہ ایم کیو ایم کے قائد کے حکم پر سندھ کے شہری نوجوانوں نے قربانی پیش کی۔

سندھ کی تاریخ کے آخری دور کا مشاہدہ کیا جائے اور عوام کی حالت زار کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس پاکستان میں جن افراد اور طبقات نے اپنی قربانی جس مقصد کے لیے پیش کی ان کی قربانی ایک طرح سے ضائع ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ اور پاکستان کے عوام کی خاطر اپنی جان کی قربانی، ضیاء الحق کی آمریت سے ٹکرا کر پیش کی۔ سندھ کے لوگوں کی حالت دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ان کی قربانی ایک طرح سے ضائع ہو چکی ہے یہ صورت حال بے نظیر کی قربانی کو دیکھ کر محسوس ہوتی ہے۔ یعنی بھٹو اور اس کی بیٹی نے جن طبقات کی خاطر اپنی اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں ان کی حالت میں بہتری کے بجائے وقت کے ساتھ ساتھ ابتری ہی دکھائی دیتی ہے۔ ان قربانیوں کا سندھ کے عوام کیے عوام کی حالت میں کسی قسم کی مثبت تبدیلی دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ سوائے زرداری خاندان کی غیر معمولی انداز میں تیزی سے ملک کے امیر کبیر خاندانوں میں شمولیت کے۔ اسی طرح سندھ کے شہری علاقوں کے باشندوں کی گزشتہ تیس سال کی قربانیوں کے اثرات متحدہ سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کی زندگی میں نظر آئے کہ جس تیزی سے وہ غربت سے نکل کر اعلیٰ مقام کے حامل ہوئے اس سے بھی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بالائی سندھ کے باشندوں کو ان کی تین نسلوں کی قربانی کا صلہ کیا ملا۔ انہوں نے متحدہ کی خاطر کس طرح اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا، کس طرح وقت آنے پر نوٹوں کی بوریاں کھول کر ان کو مکمل سپورٹ کیا۔ انتخابات میں ان کے رہنمائوں کو کونوں کھدروں سے نکال کر اپنے نوٹ خرچ کر کے ان کو اتنے بھر پور انداز میں کامیاب کروایا اس سے ان کو کیا حاصل ہوا سوائے محرومیوں، مایوسیوں، غربت افلاس کے۔ یعنی قربانی دینے والے عوام بھی جن کا تعلق سندھ کے شہری علاقوں سے تھا اس طرح سندھ سے تعلق رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی قربانیوں کا صلہ فریال تالپور اور آصف علی زرداری کی صورت ملا۔ یہ ہی ہے جھوٹ اور مکاری کا عملی مظاہرہ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا۔ جب تک ان کچے اور پکے کے ڈاکوؤں کے خلاف عوام متحد ہو کر ایک آواز کے پیچھے نہیں کھڑے ہوں گے یہ ڈاکو ان خون چوستے رہیں گے۔