مرید: حضرت نئی سیاسی پارٹی بنا رہا ہوں، روٹی، کپڑا اور مکان کے علاوہ کیا نعرہ لگائوں؟
مرشد: پتر روٹی، کپڑے اور مکان کے ساتھ تیز رفتار انٹر نیٹ کی فراہمی کا بھی نعرہ لگا دے۔ اللہ کامیاب کرے گا۔
مرید: حضرت بیوی نے بہت تنگ کررکھا ہے آئے دن مطالبہ کرتی رہتی ہے ’’دوہزار دیں بیوٹی پارلر جانا ہے میک اپ کرانے‘‘۔ آپ مشورہ دیں ایسے مواقع پر میں کیا کروں؟
مرشد: پتر اس موقع پر کچھ دیر بیوی کو تنقیدی نگاہ سے غور سے دیکھتے رہو پھر جیب سے پانچ ہزار نکالو اور کہو یہ پانچ ہزار رکھ لو دوہزار سے تمہارا کام نہیں ہوگا۔
مرید: حضرت یہ لوجکس کیا ہوتی ہیں؟
مرشد: لوجکس منطق کو کہتے ہیں۔
مرید: حضرت بہت زور مارا لیکن منطق سمجھ میں نہیں آتی۔
مرشد: پتر فرض کرو میں پوچھتا ہوں ’’تیرے گھر میں کتا ہے‘‘؟ تم کہو ’’ہا ںجی میرے گھر میں کتا ہے‘‘ تو منطق کی رو سے اس کا مطلب ہے تیرا گھر کا فی بڑا ہے جس کی حفاظت کے لیے تونے کتا رکھا ہے۔ بڑے گھر کی دیکھ بھال کے لیے نوکر بھی ہوں گے۔ نوکروں کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے تیرے پاس پیسہ بھی ہوگا۔ اس کا مطلب ہے تیری آمدنی اچھی خاصی ہوگی۔ آمدنی اچھی ہونے کا مطلب ہے تجھے تیری ماں کی دعا ہے جوہر نماز کے بعد تیرے لیے دعائیں کرتی ہے اس کا مطلب ہے تیری ماں ایک نیک عورت ہے۔ فرض کرو میرے اس سوال کے جواب میں کہ تیرے گھر میں کتا ہے تم کہو کہ میرے گھر نہیں ہے تو منطق کے اعتبار سے اس کا مطلب ہے تیری ماں ایک نیک عورت نہیں ہے۔
مرید: حضرت ہمارے زمانے میں الیکٹرونک میڈیا ہے، ایکس ہے، فیس بک ہے، واٹس اپ ہے، یوٹیوب ہے، ایک سے ایک مزے کے قصے کہانیاں اور لطیفے پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ آپ کے دور میں تو یہ سب کچھ نہیں تھا آپ کیسے وقت گزارتے تھے۔
مرشد: پتر بات یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں فیس بک تو نہیں تھی لیکن کتابیں تھیں جن میں مزے مزے کے قصے بھی لکھے ہوتے تھے۔ امام جوزی نے کتاب الحمقا میں دو چوروں کا قصہ لکھا ہے۔ ان کے سامنے سے ایک شخص اپنے گدھے کی لگام تھامے گزرا۔ ایک چور نے دوسرے سے کہا ’’میں اس کا گدھا چرا سکتا ہوں اور اس کو خبر بھی نہیں ہوگی‘‘ دوسرے چور نے کہا ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ لگام اس کے ہاتھ میں ہے‘‘ پہلے چور نے کہا ’’یہ شخص اپنے خیالات میں ایسا گم ہے کہ اسے اطراف کی کوئی خبر نہیں ہے۔ یہ ایک بے خبر اور غافل شخص ہے‘‘ یہ کہہ کر پہلا چور گدھے والے کے پیچھے گیا۔ گدھے کے گلے سے خاموشی سے رسی اُتاری اپنے گلے میں ڈال لی اور دوست کو اشارہ کیا کہ وہ گدھے کو لے کر دوڑ جائے۔ ایسا ہی ہوا دوسرا چور گدھا لے کر بھاگ گیا۔ پہلا چور کچھ دیر تو چلتا رہا پھر اڑکر کھڑا ہوگیا۔ گدھے والے نے رسی کھینچی ٹس سے مس نہ ہوا۔ غافل گدھے والے نے مڑ کر دیکھا گدھے کی جگہ ایک آدمی گردن میں رسی باندھے کھڑا تھا اس نے چور سے پوچھا ’’میرا گدھا کہاں ہے‘‘ چور نے کہا ’’گدھا کہاں وہ میں تھا۔ میں نے والدین کی نافرمانی کی تھی ان کی بددعا سے گدھا بن گیا تھا۔ اب انہوں نے مجھے معاف کردیا ہے میں دوبارہ انسان بن گیا ہوں‘‘۔ گدھے والے کو بہت افسوس ہوا کہ میں اتنے عرصے ایک انسان سے گدھے کی طرح کام لیتا رہا۔ اس نے چور سے معافی مانگی اور اسے چھوڑ کر چل دیا۔ کچھ دن بعد وہی غافل شخص گدھا خریدنے بازار گیا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا اپنا گدھا وہاں بکنے کے لیے موجود تھا۔ غافل گدھے کے پاس گیا اور بولا ’’بے وقوف پھر والدین کی نا فرمانی کر ڈالی‘‘۔
مرید: واہ مرشد مزہ آگیا۔ کتاب پڑھنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ کتاب میں پڑھی ہوئی بات یاد رہتی تھی۔ سوشل میڈیا پر گھنٹوں لگے رہیں یاد ہی نہیں رہتا کیا پڑھا تھا۔ اشفاق احمد صاحب کا ایک واقعہ پڑ ھا تھا آج بھی یاد ہے۔ آپ کا حکم ہو تو سنائوں
مرشد: کیوں نہیں ضرور سنائو
مرید: اشفاق احمد کہتے ہیں ’’میری بیوی بانو قدسیہ یونیورسٹی میں پڑھاتی تھی۔ میں ہر روز گاڑی میں اسے یونیورسٹی چھوڑنے جاتا۔ یونیورسٹی کے گیٹ پر پہنچ کر گاڑی سے اُترتا دوسری طرف سے آکر دروازہ کھولتا۔ میری بیوی بانو قدسیہ اترتی اور سہیلیوں کے ساتھ یونیورسٹی کے گیٹ سے اندر داخل ہوجاتی۔ چھٹی کے ٹائم دوبارہ بیوی کو لینے آتا اور پھر گاڑی میں بٹھا کر واپس گھر لے آتا۔ میری بیوی کی سہیلیاں روز یہ منظر دیکھتیں اور کہتیں ان کے درمیان کتنی محبت اور چاہت ہے۔ وہ دعا کرتیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی ایسا ہی شوہر دے‘۔ یہ پریکٹس ہر روز جاری رہتی۔ میں شاہی نوکر کی طرح دروازہ کھولتا اور میری بیوی شہزادی کی طرح اتر کر یونیورسٹی میں داخل ہوتی اور اس کی سہیلیاں حسرت بھری نظروں سے دیکھ کر اپنے لیے ایسے ہی شوہر کی دعا کرتیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے درمیان کوئی ایسی ویسی محبت نہیں تھی دراصل ہماری گاڑی کا دروازہ خراب تھا جو اندر سے نہیں کھلتا تھا اس لیے مجھے اتر کر باہر سے کھولنا پڑتا تھا‘‘۔
مرشد: اللہ مغفرت فرمائیں اشفاق احمد گونا گوں صفات کے مالک تھے۔
مرید: حضرت غریبوں کے حالات پر دل بہت کڑھتا ہے۔ قدم قدم پر ان کا استیصال اور حق تلفی دیکھتا ہوں تو ان کے لیے کچھ کرنے پر دل شدت سے مائل ہوتا ہے۔ راہ نمائی فرمائیے اس سلسلے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
مرشد: تم درست کہتے ہو۔ ہم نے بھی بارہا محسوس کیا ہے کہ تمہیں غریبوں کی بہت فکر ہے۔ تم مزدوروں کے مسائل پر فکر مند رہتے ہو لیکن خالی فکر مند رہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کھل کر اور زور وشور سے اس کا اظہار کیا کرو۔ اس کی مشق تم نماز کے لیے آتے جاتے کرسکتے ہو۔ جیسے ہی مسجد میں داخل ہو زور سے کھنکھارو تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ کوئی بندہ مومن مسجد میں داخل ہوا ہے۔ کسی کو بغیر ٹوپی نماز پڑھتے دیکھو تو پہلے تو اسے ٹوپی کی اہمیت کے بارے میں ہلکا سالیکچر دو پھر اپنی ٹوپی اسے پہنا دو اور خود رومال نکال کر سر پر باندھ لو۔ وضو کرنے بیٹھو تو پاس والے کو یہ احساس ضرور دلائو کہ اس کی کہنیاں سوکھی رہ گئی ہیں۔ اور ایسا کرو کہ ایک شیشی عطر کی بھی خرید لو اور ہر نمازی کے پاس جا جا کر اسے عطر لگانے کی پیش کش کرو۔ ایسا کرتے رہے تو اللہ نے چاہا تو تھوڑے ہی عرصے میں مسجد میں مقبول ہو جائو گے۔ ان کوششوں کو محلے اور پھر پورے علاقے تک پھیلاتے چلے جائو اللہ نے چاہا تو غریبوں کی خدمت کرنے کے لیے جتنی شہرت کی ضرورت ہوتی ہے تمہیں میسر آجائے گی۔
مرید: کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ زندگی میں ہرکام پرفیکٹ طریقے سے کرنا آجائے۔
مرشد: ناشتے میں انڈہ پراٹھ کھاتے ہو۔ کوشش کیا کرو انڈہ اور پراٹھا ایک ساتھ ختم ہوجائے۔