ڈارون میں جاپانی افواج کی تعیناتی اور دفاعی توازن

214

ڈارون، آسٹریلیا کا وہ تاریخی شہر جسے دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے نشانہ بنایا تھا، آج جاپانی افواج کی تعیناتی کا مرکز بن گیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف خطے میں جاپان کے بڑھتے ہوئے کردار کی عکاسی کرتی ہے بلکہ جاپانی آئین کے جنگ مخالف بیانیے پر بھی ایک نئی بحث چھیڑ دیتی ہے۔ تاہم بدلتے ہوئے عالمی حالات اور خطے کی موجودہ صورتحال میں جاپانی آئین کی تشریح کو ملکی دفاع اور سالمیت کے لیے ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ 1947 میں نافذ ہونے والے جاپانی آئین کا ’’آرٹیکل 9‘‘ جاپان کو جنگ سے باز رکھنے کا وعدہ کرتا ہے:

’’آرٹیکل 9‘‘ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جاپانی عوام جنگ کے حق کو ہمیشہ کے لیے ترک کرتے ہیں اور بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لیے طاقت کے استعمال سے انکار کرتے ہیں۔ ریاست کا جنگی حق تسلیم نہیں کیا جائے گا‘‘۔ یہ اصول جاپان کو جنگ کی راہ پر واپس جانے سے روکتا ہے، لیکن عالمی حالات میں تبدیلی نے اس کے دفاعی اصولوں کو نئے چیلنجز کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ جاپانی بیانیے کے مطابق انڈو پیسیفک خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت، شمالی کوریا کے جوہری ہتھیار، اور روس کا جارحانہ رویہ جاپان کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ لہٰذا ان حالات میں اپنی سالمیت کا تحفظ کرتے ہوئے جاپان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آئین کی تشریح کرے تاکہ دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنایا جا سکے۔

آسٹریلیا، امریکا اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ فوجی تعاون جاپان کی سالمیت اور خطے میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ آئین کے تحت اس قسم کا دفاعی تعاون، اگرچہ متنازع ہے، لیکن موجودہ حالات میں جاپان کی بقا کے لیے ضروری ہو سکتا ہے۔

جدید جنگی ہتھیاروں اور بین الاقوامی خطرات کے تناظر میں روایتی دفاعی اصول ناکافی ہو سکتے ہیں۔ آئین کی تشریح اور اس میں نرمی سے جاپان اپنے دفاع کو مضبوط بنا سکتا ہے۔ جاپان کے ماضی کی عسکریت پسندی نے خطے کے کئی ممالک کو نقصان پہنچایا۔ آرٹیکل 9 کا مقصد یہی تھا کہ جاپان دوبارہ جارحانہ عسکری اقدامات کی جانب نہ جائے۔ جاپان کا پرامن امیج اس کی سفارتی کامیابیوں کی بنیاد ہے۔ بیرونی فوجی تعیناتی یا جارحیت کا کوئی تاثر اس امیج کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور خطے میں بداعتمادی پیدا کر سکتا ہے۔ جاپانی عوام کی اکثریت جنگ مخالف ہے اور آرٹیکل 9 کو برقرار رکھنے کی حمایت کرتی ہے۔ ان کے نزدیک آئین کی سختی سے پاسداری جاپان کے استحکام اور ترقی کی ضامن ہے۔ 1942 میں جاپانی فضائی حملے نے ڈارون کو تباہ کر دیا تھا، اور یہ آسٹریلیا کی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ ماضی جاپان کے لیے ایک سبق اور دنیا کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ عسکریت پسندی امن کا متبادل نہیں ہو سکتی۔

ڈارون میں جاپانی افواج کی تعیناتی خطے میں ایک نئے سوال کو جنم دیتی ہے: کیا جاپان اپنے آئین کے اصولوں سے انحراف کر رہا ہے؟ یا یہ اقدامات خطے کے استحکام اور اپنی سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں؟ جاپان کو اپنی آئینی حدود کا احترام کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس کے اقدامات خطے میں امن کے لیے خطرہ نہ بنیں۔ تاہم، بدلتے ہوئے حالات میں آئین کی تشریح اور دفاعی حکمت عملی کا توازن وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ جاپان کو ایک پرامن قوم کے طور پر اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے عالمی برادری کو قائل کرنا ہوگا کہ اس کے اقدامات جارحیت کے بجائے استحکام کے لیے ہیں۔