اسرائیلی میڈیا اس وقت سخت، سنسر اور حقائق کو چھپانے کی کوشش میں ہے۔ لیکن جو کچھ خبریں اُسی کے اور باہر کے میڈیا سے چھن کر باہر آئی ہیں وہ بہت کچھ بتائی ہیں۔ پچھلے ہفتے اسرائیل کا ایک وزیر اپنے خطاب کے دوران اپنے مرنے والوں کو یاد کرکے آنسو بہانے لگا اس نے اکتوبر کو اسرائیل کے لیے ’’سیاہ ترین‘‘ مہینہ قرار دیا وہ بہت سی اسرائیلی جانوں کے ضیاع پر آب دیدہ ہوگیا۔ القدس امور کے ماہر زیاد ابحیص نے اس ویڈیو کو پوسٹ کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ’’ڈس انفارمیشن اور سنسر کے ذریعے ان اثرات کو چھپانے کی کتنی ہی کوششیں کی جائیں لیکن میڈیا کی خبریں اور ایسی ویڈیوز صہیونیوں کی مرضی کی جنگ کی حقیقت کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہیں۔ ایک اور پوسٹ میں وزیر خزانہ سموٹریج اور اپوزیشن لیڈر لیپڈ کو بلک بلک کر روتے دکھایا ہے جو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی۔ وزیر اسرائیلیوں کی ہلاکتوں پر رو رہا ہے اور اپوزیشن لیڈر اس پر چلا رہا ہے کہ ’’اسرائیل کو پھنسایا گیا ہے، بڑی تعداد میں اموات اور زخمی ہوئے ہیں اور جو ان پر یقین نہیں کرنے والے صہیونی اسپتالوں کا دورہ کریں۔ آزاد ذرائع کے مطابق اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہے جس کا اعتراف وہ کرتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی سخت سنسر شپ کے باعث ہلاکتوں کے درست اعداد و شمار سامنے نہیں آرہے ہیں۔ دراصل خود یہودیوں کی طرف سے اشارہ آرہا ہے کہ وہ تھک چکے ہیں ایک یہودی ایریل سیری لیوی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا ’’ہم ڈوب رہے ہیں‘‘ اور ہم کو یہ جنگ ختم کرنی ہوگی کیونکہ ہمارے پاس مزید فوجی نہیں ہیں‘‘۔ ایک 52 سالہ ربی کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ جنگ ہے اور ہمارے پاس فوجیوں کی کمی ہے‘‘۔
یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل کو فوجیوں کی کمی کا سامنا ہے۔ قدامت پسند یہودی اور عام شہریوں نے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کردیا ہے۔ بلکہ بھرتی مرکز کے قریب پولیس اور فوج میں شمولیت سے انکار کرنے والے اسرائیلیوں میں تصادم بھی ہوا ہے۔ مذہبی قدامت پسند فرقہ جس کو لازمی فوجی ڈیوٹی سے استثنا دیا گیا تھا۔ نئے اسرائیلی وزیر دفاع نے فوجیوں کی کمی کے باعث انہیں فوج میں بھرتی کی منظوری دی ہے۔ اس اعلان کے بعد نیتن یاہو کے لیے اس کے اپنے اتحادیوں کی جانب سے نیا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ مذہبی رہنمائوں نے بھی دھمکی دی ہے کہ اگر فوج میں بھرتی پر اصرار کیا گیا تو وہ حکومتی اتحاد ختم کردیں گے۔ ان کی اس دھمکی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فوجی خدمات کے بجائے اسرائیل کو چھوڑنے پر ترجیح دیں گے۔ یہودیوں کے اپنے اخبار بتا رہے ہیں کہ قدامت پسند مذہبی یہودیوں نے اس بھرتی کے خلاف احتجاج کے دوران اعلان کیا کہ وہ مرجائیں گے مگر اسرائیلی فوج میں شامل نہیں ہوں گے۔
اسرائیل کی فوجی قیادت سپاہیوں کی کمی سے پہلے ہی نیتن یاہو کو آگاہ کرچکی تھی۔ بلکہ یہاں تک کہا تھا کہ فوجوں کی قلت اُن کے جنگی فیصلوں پر اثر پڑ رہا ہے۔ فوج نے نیتن یاہو کو دو میں سے ایک آپشن پیش کیا تھا کہ یا وہ جنگ روک دے یا پھر بھرتی کی پالیسی بدل دے۔ نئے وزیر دفاع نے پالیسی بدلنے کی کوشش کی ہے لیکن اس سے حکومت کو ایک نئے اور شدید سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ اسرائیلی حکومت کا ایک اور طریقہ کرائے کے فوجی بھرتی کرین کا ہے، جس کے لیے ہندوستان سے مذاکرات کیے جارہے ہیں۔ پہلے سے بھی انڈیا کے لوگ وہاں بھرتی کیے گئے تھے۔ دیگر ممالک سے بھی پرائیویٹ فوجی بھرتی کرنے کا ارادہ ہے۔ ویسے انہیں امریکا سے اس تجربے کے بارے میں ضرور پوچھ لینا چاہیے۔
افسوس مسلمان حکومتیں اپنی اپنی فوجوں کی حفاظت کرتی رہ گئیں انہیں ایک واضح فتح کا اعزاز حاصل کرنے کی ہمت نہ ہوسکی۔ اب بھی اگر وہ دانش مندی اور بہادری سے کام لیں تو دنیا پر اپنا سکہ منوایا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف نیتن یاہو جو یہ چاہ رہے تھے کہ ان کے عوام انہیں ایک ہیرو کی حیثیت سے دیکھیں کہ انہوں نے وہ کام کیا جو کسی صہیونی نے نہیں کیا… تو ہاں انہوں نے وہ کام کیا کہ اس سے قبل کسی نے اپنی قوم کو ذلت ِ رسوائی کی اس سطح تک نہیں پہنچایا۔ سو ان کی قوم اور پوری دنیا انہیں کسی اور طرح کے خطابات سے یاد کررہی ہے۔