ایک اور فوجی آپریشن

187

پاکستان میں بار بار فوجی آپریشن کرنے اور ان کی کامیابیوں کے دعووں کے بعد نئے آپریشنز کا اعلان کیا جاتا ہے، ایک بار پھر بلوچستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، نیشنل ایکشن پلان کی وفاقی ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں دہشتگرد تنظیموں کیخلاف جامع فوجی آپریشن کی منظوری دے دی ہے۔ اجلاس کا ایجنڈا پاکستان کی انسداد دہشت گردی مہم کودوبارہ فعال کرناتھا۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ غیر فعال کب اورکیوں ہوگئی تھی۔اعلامیے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہی کچھ پہلے بھی کہا جاتا رہا ہے یا اس سے ملتے جلتے جملے بیان کیے جاتے رہے، اس مرتبہ بھی یہ کہا گیا ہے کہ شرکا کو سکیورٹی صورتحال،دہشت گردی سمیت دیگر اہم چیلنجز کے خلاف اقدامات پر بریفنگ دی گئی جبکہ اجلاس کو ملک میں امن وامان، مذہبی انتہاپسندی سے نمٹنے کی کوششوں پر بھی بریفنگ دی گئی۔اعلامیے کے مطابق اجلاس کو غیر قانونی اسپیکٹرم اور جرائم کے گٹھ جوڑ کے خلاف اقدامات، دہشت گردی کے نیٹ ورک، تخریب کاری اور غلط معلومات کی مہمات سمیت دیگر امور پر بھی بریفنگ دی گئی۔اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ فورم نے چیلنجز سے موثر طریقے سے نمٹنے کیلیے متحد سیاسی آواز، قومی بیانیے کی ضرورت پر زور دیا اور کہاکہ قومی اتفاق رائے، وژن کے تحت قومی انسداددہشت گردی مہم دوبارہ فعال کرنے کیلیے اہم ہیں۔ان باتوں سے کسی کو انکار نہیں سوال تو یہ ہے کہ بلوچستان میں اتنی ساری سیکورٹی ایجنسیاں کیا کررہی ہیں، ان کی وہاں موجودگی کے باوجود دہشت گرد تنظیمیں کارروائی کرجاتی ہیں ،بلوچستان میں پولیس ،لیویز، ایف سی ،رینجرز اور فوج کے علاوہ سی ٹی ڈی اور خفیہ نیٹ ورک بھی حفاظت پر مامور ہیں لیکن پھربھی بسوں سے اتار کر درجنوں لوگوں کو قتل کردیا جاتا ہے ،انٹیلی جنس ایجنسیوں کی موجودگی کے باوجود ریلوے اسٹیشن پر واردات کی منصوبہ بندی سے بے خبری بتاتی ہے کہ ایجنسیاں تو بہت ہیں ان میں انٹیلی جنس نام کو بھی نہیں ہے۔ پھر ہر نئے آپریشن کا سبب عوام کا تحفظ اور ملکی ترقی کا تحفظ بتایا جاتا ہے اور دہشت گردوں کو ملکی ترقی کا دشمن کہا جاتا ہے۔ بالکل ایسا ہی ہے ، لیکن اتنے بہت سے آپریشنز کے باوجود ملک کا کون سا علاقہ محفوظ قرار دیا جاسکتا ہے، کہاں ترقی ہوئی اور کہاں عوام محفوظ ہیں ، کے پی، بلوچستان ، کراچی کوئی جگہ محفوظ نہیں، اب تک ہونے والے آپریشنز کو کامیاب تو قرار دیا جاتا ہے لیکن ان کامیابیوں کے باوجود نئے آپریشنز کی ضرورت کیوں پڑجاتی ہے ، وہ کون سی نرسریاں ہیں جہاں دھڑادھڑ دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں، بلکہ اب تو نرسری سے زیادہ فیکٹری کہنا درست ہے۔اتنے بڑے بڑے دماغ ان اجلاسوں میں بیٹھتے ہیں ذرا وہ سابق آپریشنوں کا جائزہ لیں ان کے نتائج پر بھی غور کریں، اس کے علاوہ سب سے اہم چیز پاکستانی عوام پر ہونے والے نفسیاتی اثرات کابھی جائزہ لیں ان پے در پے آپریشنوں کے نتیجے میں، کے پی ، بلوچستان ،اندرورن سندھ اور کراچی میں خصوصا فوج کے بارے میں اچھے جذبات کیوں کم ہوگئے ،اس کے سبب پر غور کریں کہ آپریشن میں خرابی تھی، فورسز کا طریقہ کار غلط تھا یا کوئی اور وجہ تھی ، پاک فوج کو ویسے بھی بھارت ،افغانستان اور دیگر چیلنجز بھی درپیش ہیں حکومت اپنی ناکامی کا ملبہ فوج پر کیوں ڈالتی ہے اسے پاکستانی عوام کے سامنے کھڑا کردیا جاتا ہے۔ پھر کہیں حکمت عملی کی غلطی اور کہیں رویے کی خرابی ہمیشہ کے لیے کوئی داستان چھوڑ جاتی ہے،اور یہ کام اسٹیبلشمنٹ کے پالے ہوئے عناصر ہی کرتے ہیں، اس کا کاشتہ اورساختہ الطاف حسین کھل کر آرمی چیف ،فوج اور ڈی جی آئی ایس آئی کو گالیاں دیتا رہا،اس کے نتیجے میں کراچی و حیدرآباد میں اس کے پیروکاروں اور ان شہروں سے ہمدردی رکھنے والے عام لوگوں کے ذہنوں پر فوج کا تاثر خراب کیا گیا ، یہی کام آجکل 2018 کا لاڈلا کررہا ہے ،بیرون ملک سے اس کے متوالے فوج کو نشانہ بنا رہے ہیں اور زوردار پروپیگنڈا کررہے ہیں، ایسے میں حکومت نے پھر بلوچستان میں فوجی آپریشن کی منظوری دی ہے۔ اگر فوجی آپریشن اتنا ہی ضروری ہے تو پہلے سول انتظامیہ پولیس وغیرہ اپنی ناکامی اور نااہلی کا کھل کر اعتراف کریں اور کہیں کہ ہمارے بس میں شہریوں کو تحفظ دینا نہیں ہے اس لیے اب فوج کو اختیار دیا جارہا ہے، بلکہ اختیار کیا اقتدار ہی اسے دیکر سول حکومت گھر جائے تاکہ آپریشن کی کامیابی وناکامی ہر صورت کی فوج ہی ذمہ دار ہو ،یہ کھچڑی بھی مشکل پیدا کرتی ہے ،فوجی کسی کو پکڑتے ہیں عدالت ضمانت دیدیتی ہے ،انٹیلی جنس معلومات پولیس فراہم کرتی ہے اور غلط ہونے پر فوج بدنام ہوتی ہے۔ تو پھر اب نئے آپریشن سے قبل ان باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ،اور فوج بھی تو عوام میں اپنا تاثر اچھا رکھنے کی خواہشمند ہے وہ بھی سول حکومت کی چال سے ہوشیار رہے ،اور اگر سب کچھ وہی کررہی ہے تو نتائج کا بھی خود ہی سامناکرنا چاہیے ، سامنے سول حکومت کو کیوں کررکھا ہے۔ اجلاس میں کچھ تنظیموں کا نام بھی لیا گیا ہے ان میں کالعدم مجید بریگیڈ، کالعدم بی ایل اے، کالعدم بی ایل ایف اور بی آراے ایس شامل ہیں۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ دہشتگرد تنظیمیں ملکی اقتصادی ترقی کو ناکام بنانے کیلیے شہریوں، غیرملکیوں کونشانہ بنارہی ہیں، یہ سب دشمن قوتوں کے ایما پر ہو رہا ہے۔اجلاس میں نیکٹا کو دوبارہ فعال کرنے، قومی اور صوبائی انٹیلی جنس فیوژن اور خطرات کی تشخیص کے مراکز کے قیام پر بھی اتفاق کیا گیا جبکہ اجلاس میں صوبائی ایپکس کمیٹیوں کی زیر نگرانی ضلعی رابطہ کمیٹیوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں وزیراعظم کا کہنا تھاکہ پاکستان کی معیشت سب کی کاوشوں سے استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے، اہم پہلو ملک کی ترقی اور خوشحالی ہے،۔ان کا مزید کہنا تھاکہ کیا دھرنا پاکستان کے مفاد ہے؟ ہمیں بیٹھ کرٹھنڈے دل سے سوچنا ہے، فیصلہ کرنا ہے دھرنے اورلانگ مارچ کریں یا ترقی کیلیے کام کریں؟ کیا ملک اس وقت دھرنے، جلوس اور لانگ مارچ کامتحمل ہوسکتاہے؟ ہمیں ملکی خوشحالی کیلیے مل بیٹھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ اگر ملک کے لیے واقعی ہمدردی دکھانی ہے تو اس کے لیے اشرافیہ کو قربانی دینی ہو گی، غریب آدمی 77 سال سے قربانیاں دیتا آیا ہے اب اشرافیہ کو یہ فریضہ انجام دینا ہوگا،پتا نہیں یہ جملہ عوام کوخوش کرنے کے لیے تھا یا واقعی اس کا کوئی مطلب بھی ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر ملکی ترقی کو آگے لے کر جانا ہے تو ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا یہ پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، ایپکس کمیٹی اجلاس سے خطاب میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا کہنا تھاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر پاکستانی سپاہی ہے، اس جنگ میں کوئی یونیفارم میں ہے اور کوئی یونیفارم کے بغیر اور ہم سب کو مل کردہشت گردی کے ناسور سے لڑنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم سب پر آئین پاکستان مقدم ہے، آئین ہم پرپاکستان کی اندرونی اور بیرونی سکیورٹی کی ذمہ داری عائد کرتا ہے اور جوبھی پاکستان کی سکیورٹی میں رکاوٹ بنے گا، ہمیں کام کرنے سے روکے گا اسے نتائج بھگتنا ہونگے۔آرمی چیف کا کہنا تھاکہ گورننس کی خامیوں کو دور کررہے ہیں، یہ سویلین حکمرانوں کی نااہلی کا اعلان ہی سمجھا جانا چاہیے۔ پاکستان آرمی اورقانون نافذ کرنے والے ادارے گورننس میں موجود خامیوں کو روزانہ اپنے شہیدوں کی قربانی دیکر دورکر رہے ہیں۔آرمی چیف کا کہنا بجا ہے کہ آئین سب پر مقدم ہے لیکن چھبیس ترامیم کے بعد تو اصل آئین تلاش کرنا بھی بڑا کام ہے۔