پشاور ہائی کورٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواست مسترد کر دی ، 21 اکتوبر کو صدر آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد باقائدہ طور پر آئین کا حصہ بن گئی تھی ۔
زرائع کے مطابق درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ عدالتی کمیشن میں تبدیلیوں کے ذریعے یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرتی ہے تاہم، عدالت نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار نے اپنی درخواست واپس لے لی ہے۔
اس سے قبل آئینی ترامیم کے خلاف ایک نئی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی۔
ایڈووکیٹ سیم چودھری کی جانب سے دائر اس درخواست میں آئین کے آرٹیکل 179 کو بنیادی حصہ قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے، جو ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر سے متعلق ہے۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس بل کو دو تہائی اکثریت سے منظور کیا تھا، جس کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کا دورانیہ تین سال مقرر کیا گیا ہے۔
26ویں آئینی ترمیم کی تفصیلات
ترمیم کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال مقرر کی گئی ہے۔
چیف جسٹس کی تقرری کے لیے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو تین سب سے سینئر ججز کے پینل سے ایک نام کا انتخاب کرے گی ۔
یہ کمیٹی، جو قومی اسمبلی کے 8 اور سینیٹ کے 4 اراکین پر مشتمل ہوگی، وزیر اعظم کو نام تجویز کرے گی، جو صدر کو حتمی منظوری کے لیے ارسال کریں گے۔
مزید برآں، سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کے لیے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا ہے، جس کی سربراہی چیف جسٹس کریں گے۔ کمیشن میں تین سینئر ججز، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے دو، دو اراکین، وفاقی وزیر قانون و انصاف، اٹارنی جنرل، اور پاکستان بار کونسل کے ایک نمائندے شامل ہوں گے، جنہیں سپریم کورٹ میں کم از کم پندرہ سال کا تجربہ حاصل ہوگا۔