اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے رہائی کا حکم دے دیا ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج میاں گل حسن اورنگزیب نے عمران خان کی ضمانت دو لاکھ روپے مالیت کے دو الگ الگ ضمانتی مچلکوں کے عوض منظور کی، جو علیحدہ ضامنوں کے ذریعے جمع کرائے جائیں گے۔
تازہ ترین پیشرفت کے بعد، پی ٹی آئی کے بانی اسلام آباد کی حدود میں کسی اور کیس میں مطلوب نہیں رہے۔
سماعت کے دوران ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے میڈیا رپورٹس پر تحفظات کا اظہار کیا اور دعویٰ کیا کہ میڈیا نے قبل از وقت ضمانت کی منظوری کا تاثر دیا ہے۔
جسٹس اورنگزیب نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ میڈیا قیاس آرائیوں پر توجہ نہ دیں اور کہا کہ عدالت کے فیصلے ایسے بیانات سے متاثر نہیں ہوں گے۔
جج نے میڈیا میں کیے گئے دعوؤں کی ساکھ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کی بنیاد کیا ہے؟ انہوں نے ایک زیور کے سیٹ کی قیمت کے تعین کے بارے میں بھی استفسار کیا۔
پی ٹی آئی کے بانی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ یہ وضاحت پراسیکیوشن کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے رسیدوں میں تضادات کی نشاندہی کی اور کہا کہ یہ رسیدیں بشریٰ بی بی کے نام پر جاری کی گئیں، نہ کہ پی ٹی آئی کے بانی کے نام پر کی گئی ہیں ۔
وکیل نے موقف اختیار کیا کہ پراسیکیوشن کا مقدمہ اہم گواہوں جیسے کہ سہیب عباسی کی گواہی پر مبنی ہے، جنہیں معاف کر کے کیس کا گواہ بنایا گیا ہے ۔
بیرسٹر صفدر نے وضاحت کی کہ سہیب عباسی نے پی ٹی آئی کے بانی سے دھمکیوں کا الزام لگایا، لیکن کسی براہِ راست رابطے سے انکار کیا۔
عدالت نے مزید استفسار کیا کہ آیا قیمت کے تعین میں ملوث کسٹمز افسران نے کسی دباؤ کا ذکر کیا ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ایسے کوئی دعوے نہیں کیے گئے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے الزام لگایا کہ بلغاری زیور کا سیٹ توشہ خانہ میں جمع نہیں کرایا گیا اور اس کی قیمت کم ظاہر کر کے ریاست کو مالی نقصان پہنچایا گیا۔
جسٹس اورنگزیب نے استفسار کیا کہ قیمت کم ظاہر کرنے سے پی ٹی آئی کے بانی کو کیا فائدہ ہوا؟ جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ان کی بیوی کے فائدے سے وہ خود بھی مستفید ہوئے۔
جسٹس اورنگزیب نے اس منطق کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ “میری بیوی کی چیزیں میری نہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں۔”
بیرسٹر صفدر نے مؤقف اختیار کیا کہ تمام تحائف 2018 کی توشہ خانہ پالیسی کے تحت حاصل کیے گئے اور ان کی قیمت کا تعین قانون کے مطابق کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام ادائیگیاں پالیسی کے مطابق کی گئیں اور کسی قسم کی بے ضابطگی ظاہر نہیں ہوئی ہیں ۔ جسٹس اورنگزیب نے نوٹ کیا کہ سابق حکومت نے عدالتی استفسارات کے باوجود توشہ خانہ کی تفصیلات فراہم نہیں کیں ہیں ۔
پراسیکیوشن نے ٹرائل کے دوران ملزم کے رویے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے تاخیری حربوں کا الزام لگایا ہے ۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت میں شواہد پیش کیے کہ سہیب عباسی نے قیمت کم ظاہر کرنے پر معافی نامہ جمع کرایا تھا، جو چیئرمین نیب نے قبول کر لیا ہے ۔
تاہم، عمران خان کے وکیل نے ایف آئی اے کے چالان کو جلد بازی میں دائر کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کے اہم پہلوؤں کو نظر انداز کیا گیا۔
سماعت کے دوران عدالت نے مشاہدہ کیا کہ توشہ خانہ کیس میں نمایاں تاخیر ہوئی اور اسے درج کرنے میں تین سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے ۔