ملک میں آئی ایم ایف کی اچانک آمد نے حکومت کے ایوانوں میں بھونچال مچا رکھا تھا۔ اس پوری صورتحال سے سب ہی پریشان تھے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کوئی اچانک نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ٹرمپ کی امریکی انتخابات میں کامیابی ہے اور ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے لیے بنی مشکل صورتحال کی ایک جھلک ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اب پاکستان کے مالیاتی نظام پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ امریکا کے اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے بھی خدشات ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری معیشت کی دُم آئی ایم ایف نے مشرقِ وسطیٰ پہنچا دی ہے۔ جہاں 4 سال قبل بھی یہ کوشش کی جارہی تھی کہ ’’ابراہم ایکارڈ‘‘ میںپاکستان کو شامل کیا جائے۔
عرب ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ میں سیکورٹی کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے اور اس کے تناظر میں ٹرمپ کی جانب سے اس خطے میں امریکی اتحادیوں کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنا اور انتہا پسند قوتوں کے خلاف ہتھیار اُٹھانے کے لیے آگے بڑھنے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ اس کے لیے عرب اتحادیوں کے کندھے کو استعمال کیا جائے۔ اس صورتحال کی روشنی میں اطلاعات یہ ہیں کہ اب آئی ایم ایف کا ماسٹر ہر چھے ماہ کے بجائے تین ماہ میں پاکستانی معیشت کے لیے نیا نصاب جاری کر ے گا جس پر پاکستان کو عمل کرنا ہو گا۔ عوام کو یہ بتایا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف صرف سیر سپاٹے کے لیے آیا تھا لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کی آمد کے پس ِ پردہ حقائق سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ ایک پہلو اس وقت سامنے آیا جب آئی ایم ایف نے ایف بی آر کو مشورے دینے والی کمپنی کی ایک رپورٹ حکومت کے سامنے رکھی جس میں بتایا گیا ہے کہ ایف بی آر کے چند اہلکاروں کی سہولت کاری نے ملک کو 500 ارب روپے کے ٹیکس سے محروم کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں رپورٹ یہ ہے کہ ایک 76 سالہ خاتون اپنا اکائونٹ بند کر بیرون ِ چلی گئیں تھیں اس کو ’’ری اوپن‘‘ کرکے استعمال کیا گیا ہے جس میں سے 500 ارب ٹیکس چوری کا انکشاف سامنے آیا ہے لیکن یہ اب تک معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ اس سلسلے میں ایف بی آر کے سہولت کار گرفتار بھی ہوئے ہیں کہ نہیں۔ ٹیکس چوری ملکی معیشت کے لیے بڑا خطرہ بن گئی ہے۔ ٹیکس چوری اور نادہندگی روکنے کے لیے قوانین کو سخت کیا جائے اور اس میں ملوث ٹیکس اہلکاروں کوکڑی سزا دی جائے۔ اس سلسلے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ معیشت کے بہت سے اہم شعبے ٹیکس ادا نہیں کررہے ہیں، ٹیکس شارٹ فال کی وجہ سے ملک مسائل کا شکار ہے مگر اس کے باوجود ٹیکس مشینری میں شامل بعض عناصر ٹیکس چوروں کے مددگار بن کر ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں جوملک کے اقتصادی استحکام کے لیے خطرہ ہے۔
ٹیکس چوری اور نادہندگی کی وجہ سے حکومت کی آمدنی میں کمی آتی ہے جس سے انفرا اسٹرکچر منصوبے، صحت وتعلیم اور دیگر خدمات فراہم کرنے والے شعبے متاثر ہوتے ہیں۔ ٹیکس چوری کے مالی نقصانات کے علاوہ اس سے ٹیکس سسٹم پر عوام کا اعتماد کم ہوجاتا ہے اور بہت سے لوگ ٹیکس ادا کرنے کے بجائے ٹیکس چوری کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ ٹیکس فراڈ کے خاتمہ کے لیے سارے نظام کو خود کار بنانا اور مختلف اداروں کے مابین ہم آہنگی بڑھانا ضروری ہے تاکہ ملک ٹیکس کلیکشن کے معاملے میں اپنے پیروں پرکھڑا ہوسکے۔ رشوت میں اضافہ کے لیے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے ایف بی آر میں مانیٹرنگ اور آڈٹ کا نظام کمزور ہے جبکہ ٹیکس چوری میں ملوث ٹیکس دہندگان اور ٹیکس وصول کرنے والوں کی ملی بھگت روکنے کے لیے پورے ٹیکس سسٹم کو خود کار بنانا ضروری ہے تاکہ پائیدار اقتصادی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے ہر قسم کی کاروباری خرید و فروخت کو ڈیجیٹل کیا جائے تو خود بخود مقررہ شرح سے ٹیکس وصول ہو سکے گا جبکہ بھاری جرمانے، ٹیکس مراعات کی معطلی، اور فوجداری مقدمات کا سلسلہ شروع کرنے سے یہ مسئلہ کبھی نہ ماضی میں ختم ہوا ہے اور نہ ہی یہ مسئلہ حل ہو سکے گا اور ساتھ ہی فراڈ اسکیموں، فرضی کمپنیوں کی تخلیق، انوائس کی قیمتوں میں ہیرا پھیری، فلائنگ انوائسز اور چوری کے دیگر تمام طریقوں کو روکنے کے لیے بھی ٹیکس کے نظام کو خود کار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ٹیکس کے نظام میں موجود رخنوں کی وجہ سے ٹیکس چوری کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
اس سلسلے میں وفاقی وزیر ِ خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ کوئی منی بجٹ نہیں آ رہا۔ 12 ہزار 970 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف پورا کیا جائے گا، ٹیکس وصولیوں کو انفورسمنٹ اور انتظامی اقدامات سے بہتر کیا جائے گا۔ پاکستان نے پرائمری سرپلس کا ہدف کامیابی سے پورا کیا ہے، نیشنل فسکل پیکٹ کو کابینہ نے منظور کیا ہے، اب این ایف سی پر نظر ِ ثانی کی ضرورت نہیں۔ وفاقی وزیر ِ خزانہ نے کہا کہ فسکل پیکٹ کی منظوری کے لیے وزیر ِ اعلیٰ سندھ کا خصوصی طور پر مشکور ہوں، جب بھی قومی مفاد کا معاملہ ہوا تو کے پی کو سب سے آگے پایا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف مشن کے دورے کا مقصد معیشت کا جائزہ لینا نہیں تھا بلکہ اعتماد سازی میں اضافہ تھا، آئی ایم ایف سے مذاکرات تعمیری اور بامقصد رہے، آئی ایم ایف سے ورچوئل مذاکرات ہوتے رہتے ہیں، کچھ نکات پر آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت ضروری تھی۔
آئی ایم ایف نے حکومت سے کہا ہے کہ نجی شعبے کا حصہ بڑھا کر حکومت ِ پاکستان کا حصہ محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے نجکاری میں اضافہ جاری رکھا جائے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے امریکا میں حکومت ِ پاکستان کا ہوٹل بھی فروخت کیا جائے جس کی اونے پونے قیمت بھی بتائی گئی ہے۔ اس قدر کم قیمت میں ہوٹل کی فروخت درست فیصلہ نہیں ہو گا۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ آئی ایم ایف سے حقائق کی بنیاد پر کھل کر بات چیت کی، آئی ایم ایف وفد نے پاکستان کی بات غور سے سنی ہے اور اس سے مطمئن نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات پر زیادہ بات چیت ہوئی ہے۔ محمد اورنگزیب نے اس کی تفصیل نہیں بتائی لیکن معلوم ہوا ہے کہ آئی ایم ایف نے توانائی کمپنیوں کے معاہدے ختم نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے، یہ بھی ہوا ہے کہ آئی ایم ایف نے جینکو، ڈسکوز اور ائر پورٹ کی نجکاری کا مطالبہ کیا ہے اور محمد اورنگزیب نے کہا کہ ان اداروں کو نجی شعبے کو دیں گے۔
وفاقی وزیر ِ خزانہ نے کہا کہ پی آئی اے کی نج کاری کی بولی سے دھچکا لگا، اس کو آگے بڑھائیں گے، حکومت کے محکموں میں رائٹ سائزنگ کا کام جاری ہے، 11 محکموں میں رائٹ سائزنگ کا کام مکمل ہو گیا ہے اور 5 محکموں میں جاری ہے۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پنشن کے نظام پر بہت کام کیا، تمام سول بیوروکریٹ پنشن میں حصہ ڈالیں گے۔ یہ ساری صورتحا ل یہ بتا رہی ہے معیشت کو مضبوط بنانے کے بہانے عالمی ساہوکار پاکستان کو کہیں سے کہیں پہنچانے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھیں گے۔ اب یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ کس رستے کو اپنے لیے منتخب کر تا ہے۔