علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء کو پیدا ہوئے اور 21 اپریل 1938 میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آج انہیں اس دنیا سے گزرے تقریباً 9 عشرے گزر چکے ہیں۔ جلد ہی یہ ایک صدی میں بدل جائیں گے۔ اس قدر طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود اقبال کی فکر اور گہری دور اندیش نظر نے حالات کا جو تجزیہ کرکے امت کو درپیش مسائل اور ان کے جو حل پیش کیے تھے وہ آج بھی سو فی صد صحیح ثابت ہورہے ہیں۔ تعلیم کے بارے میں ان کے خدشات تھے کہتے ہیں۔
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا اِلحاد بھی ساتھ
گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کر آئی ہے مگر تیشۂ فرہاد بھی ساتھ
’’تخم دیگر بکف آریم و بکاریم زنو
کانچہ کشتیم زخلجت نتواں کرد درو‘‘
آخری شعر فارسی میں ہے جس کا ترجمہ ہے:
’’اب نیا بیج کہیں سے حاصل کریں اور اسے ازسرنو بوئیں، جو کچھ پہلے ہم نے بویا تھا اس کی فصل تو ہم شرمندگی کے مارے کاٹ نہیں سکتے۔ اس فصل کا ایک منظر ابھی لوگوں نے دیکھا کہ انڈس یونیورسٹی میں شیطانی پارٹی منعقد کرکے ہر طرح سے شیطان کو خوش کیا گیا۔ یہ کوئی ایک خبر نہیں ہے بلکہ منشیات اور فحاشی کی خبریں ہر کچھ دنوں میں تعلیمی اداروں سے آتی ہیں۔ انتہائی بری بات یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم اور ہمارے تعلیمی ادارے ہمارے بچوں کو کیا سیکھا رہے ہیں۔ جہاں لبرل ازم اور روشن خیالی کے نام پر ہر طرح کی بے راہ روی اور فضول حرکتوں کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ زیادہ شور ہوتا ہے تو تعلیمی اداروں کی طرف سے معصومیت ظاہر کرکے کہا جاتا ہے کہ ہمیں تو اس بارے میں خبر ہی نہیں ہے اور کوئی تحقیقاتی کمیٹی بٹھا دی جاتی ہے جس کا کوئی نتیجہ اور تحقیق کبھی سامنے نہیں آتی۔ سو معاملہ یہ ہے کہ گھروں میں تعلیم کی شیریں تو عام ہوئی لیکن وہ الحاد کا تیشہ بھی اپنے ساتھ لے کر آگئی ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کی بودی بنیادوں اور حکومتوں کی نااہلی نے اس تیشہ کی دھار تیز سے تیز ہی کی۔ اخلاقی تعلیم اور تربیت کو تعلیمی اداروں سے باہر کردیا گیا۔ یوں ہماری اسلامی اقرار و ثقافت، تہذیب کی فطری پابندیاں سے دوری اور رواداری، رشتوں کا احترام کے فقدان نے نئی نسل کو بے راہ روی کی نئی راہوں سے روشناس کرادیا ہے۔ کیا آج اداروں میں رائج تعلیمی نصاب ایک اچھا انسان بنانے کے لیے کافی ہے؟ اس کا جواب تعلیمی اداروں میں ہونے والی خرافات سے مل جاتا ہے ہمارے معاشرے میں ظلم و ستم لوٹ مار قتل و خون ریزی ڈکیتی اغوا رشوت خوری جیسے گھنائونے جرائم فیشن کی طرح اپنائے جارہے ہیں فحاشی اور بے حیائی ہمارے معاشرے کا حصہ بن گئی ہے۔ اس سے ہمارے تعلیمی نظام کی قلعی کھل جاتی ہے۔ تعلیم تو تہذیب کی تمدن کی نمائندہ ہوتی ہے۔ معاشرے کی محافظ ہوتی ہے اچھی تعلیم اچھے اور بہتر معاشرے کی ضمانت ہوتی ہے فکرو عمل کو روشنی فراہم کرتی ہے محبت و اخلاق رواداری بھائی چارے کو مثالی بناتی ہے امن و آتشی کی پیغام بر ہوتی ہے۔ مگر افسوس ہماری دی جانے والی تعلیم تو آپس کی دوریاں بڑھا رہی ہے۔ شرافت کی قبا تار تار کرنے میں فخر محسوس کررہی ہے نفرت و تعصب کو خود رو پودوں کی طرح بڑھاتی جارہی ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کا ادراک علامہ اقبال کو ہوگیا تھا۔ انہوں نے نظم تہذیب حاضر میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے پھر کہا کہ:
حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
رقابت، خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی
فروغِ شمعَ نو سے بزمِ مسلم جگمگا اُٹھی
مگر کہتی ہے پروانوں سے میری کہنہ ادراکی
’’تو اے پروانہ! ایں گرمی ز شمع محفلے داری
چومن در آتش خود اگر سوزِ دلے داری‘‘
اقبال کہتے ہیں کہ غیروں کی تہذیب عجیب لذتیں اپنے ساتھ لائی ہے مثلاً حسد، عداوت، بے غیرتی، بے صبری، انتہائی حرص و ہوس جو ہماری تہذیب کو تباہ کررہی ہے۔ آخری فارسی شعر میں کہتے ہیں کہ ’’نئی شمع کی روشنی سے مسلمان کی محفل بیشک جگمگا اُٹھی مگر اس شمع پر قربان ہونے والے ہر پروانے سے میری پختہ سمجھ یہ کہہ رہی ہے کہ اے پروانے! دوسرے کی حرارت میں جلنا اہل سوز کے لیے زیبا نہیں اگر تیرے دل میں جلن موجود ہے تو میری طرح اپنی آگ میں جل۔ یعنی غورو فکر محنت کی عادت اور گہرائی اور گیرائی کے ساتھ سوچنے اور عمل کی قوت۔
یہ سب کچھ خالی تعلیم نہیں دیتی بلکہ تعلیم کے ساتھ اخلاقی تعلیم و تربیت پیدا کرتی ہے۔ اخلاقی تربیت کے بغیر تعلیم ڈگری تو دے سکتی ہے لیکن اعلیٰ انسان نہیں بنا سکتی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ آج تعلیم گاہوں اور ان کے نصاب کو ازسرنو ترتیب دیا جائے تا کہ ہماری آنے والی نسلیں اخلاقی تربیت کے ہیرے جواہر سے اپنے کردار کو سجائیں اور ملک و ملت کو بلند مقام تک لے جانے میں کامیاب ہوں۔ اقبال کہتے ہیں کہ:
چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی
یہ ہستی دانا ہے، بینا ہے، توانا ہے
یعنی اعلیٰ کردار کے حامل انسان پورے باغ کی شکل بدل سکتے ہیں۔ انسان کی اشرفیت کی تین بنیادوں کو انہوں نے بڑے اچھوتے اور پُر تاثیر انداز میں بیان کیا ہے پہلی دانائی، دوسری نیک و بد کی تمیز اور تیسری عمل کی قوت۔