خرگوشوں کی لمبی لمبی چھلانگیں

137

یہ کسی مذہبی عقیدے کے محض زبانی اقرار کی طرح ہے۔ پچھلے ہفتے سعودی عرب کے شہر ریاض میں مسلم سربراہان کا، تنظیم تعاون اسلامی اور عرب لیگ کا مشترکہ اجلاس۔ اجلاس میں وہ عرب ممالک بھی شامل تھے جن میں امریکا کے فوجی اڈے ہیں جہاں سے فلسطینیوں کو شہید کرنے کے لیے اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی کی جاتی ہے۔ ان میں وہ عرب حکمران بھی شامل تھے جو خاموشی سے اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اور حماس کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو جنگ تصور کرتے ہیں۔

اجلاس میں جو قرارداد پاس ہوئی اس کا سب سے زیادہ مضحکہ خیز اور شرمناک حصہ عرب جمہوریہ مصر اور ریاست قطر کی طرف سے ’’غزہ کی پٹی میں فوری اور مستقل جنگ بندی کے حصول کے لیے امریکی تعاون سے کی جانے والی انتھک کوششوں کی حمایت اور تعریف کا اظہار تھا‘‘۔ امریکا کے لیے اس اخلاقی راست بازی کا اظہار اس کے باوجود تھا کہ بائیڈن انتظامیہ نے اقوام متحدہ میں دو مرتبہ جنگ بندی کے لیے پیش کی جانے والی قراردادوں کو ویٹو کیا تھا۔

قرارداد میں کہیں غزہ میں جاری ظلم کو نسل کشی قرار دینے کی ادنیٰ سی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ حالانکہ خود مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق غزہ میں 43 ہزار سے زائد مسلمان شہید، لا کھوں زخمی اور لا کھوں بے گھر اور دربدر ہو چکے ہیں۔ غزہ کی مکمل ناکہ بندی کی وجہ سے 10 لاکھ سے زائد افراد بھوک سے لڑ رہے ہیں جبکہ لا کھوں افراد زخموں اور بیماریوں سے چور ہیں۔ شہداء اور زخمیوں کی بڑی تعداد خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔

لبنان اور ایران تک پھیل جانے والے اسرائیلی حملوں کے باوجود اجلاس میں اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنے کی شعوری کوشش نہیں کی گئی۔ قرارداد میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے احتیاط کی گئی کہ اسرائیل سے وصال کا تعلق کہیں تڑخ نہ جائے۔

بے پناہ جنگی جرائم کے ارتکاب کے باوجود اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات رکھنے والے مسلم ممالک کے کسی بھی اخلاقی معیار نے انہیں اس بات پر مجبور نہیں کیا کہ وہ ان تعلقات کو منقطع کرنے پر معمولی سا غور بھی کرلیں۔ ان کی پر جوش تقاریر اور بحثیں سچائیوں اور حقیقی عملی اقدام کی خاک تک پہنچنے سے بھی معذور تھیں۔

اجلاس کا مرکز ومحور محض قرارداد کا اجرا تھی۔ قراداد کو ہی اسرائیل کے بدل جانے کے لیے ہتھیاروں کی طرح اعتماد سے پیش کیا گیا۔ اسرائیلی جنگی نخوت کی تمام کارروائیوں کا جواب محض اور محض قراردادیں، اسرائیل کو کھلی چھوٹ کے مترادف ہیں کہ وہ پوری مقبوضہ عرب سرزمین کو کامل یکسوئی اور بربادی کے تمام ہتھیاروں اور ہتھکنڈوں کے ساتھ بلا خوف تباہ کردے مسلم ممالک کے سربراہان قراردادوں سے آگے نہیں بڑھیں گے۔

2024 کی قرارداد بھی 2023 کی قرارداد کا فوٹو پرنٹ ہے جو اہل فلسطین کے لیے جنتوں کے دروازے وا کرنے سے آگے جانے کے کسی بھی عملی اقدام سے دور اور بہت دور ہے۔ 2023 میں بھی مسلم ممالک کے سربراہان نے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کی تھی۔ اس برس بھی کی ہے، 2025 میں بھی ایسی ہی مذمت کرنے میں ان کی عزت نفس مانع نہیں ہوگی۔ 2026 اور 2027 اور اسی طرح 2028 اور اس کے اگلے برسوں میں بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا اگر یہی حکمران برقرار رہے یا صرف چہرے تبدیل ہو گئے۔

اجلاس کی روداد کا مطالعہ کیا جائے تو ایسا لگتا ہے خرگوش جھاڑیوں کے پیچھے سے نمودار ہورہے ہیں اور لمبی لمبی چھلانگیں لگاتے اور اچھل کود کرتے سایوں کی طرح غائب ہورہے ہیں جن کے پاس اس کے علاوہ کوئی صلاحیت ہے اور نہ طاقت۔ اپنی تیل اور اقتصادی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والے ممالک پر جنگ کو روکنے کے لیے دبائو ڈالنے کے لیے جو کچھ نہیں کرسکتے۔ غزہ پر اسرائیل کے حملوں کو ایک سال سے اوپر ہو چکا ہے اور ایک سال سے اوپر ہی مسلم ممالک کو کسی بھی عملی اقدام سے پرے اسرائیل کے خلاف اچھل کود کرتے۔

مسلم ممالک کے سربراہان کا حالیہ اجلاس ڈونالڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے فوری بعد منعقد کیا گیا ہے جسے ڈونلڈ انتظامیہ کے لیے پیغام قراردیا جارہا ہے۔ لگتا ہے یہ لوگ ٹرمپ کو جانتے ہیں اور نہ مشرق وسطیٰ کے لیے اس کی سخت گیر پالیسیوں سے یا پھر حقائق کا سامنا کرنے اور ان سے نمٹنے کی ان میں صلاحیت نہیں۔ وہ ٹرمپ جس نے امریکی اسٹیبلشمنٹ، انتظامیہ اور میڈیا کو چکرا کر رکھ دیا ہے وہ ان کاغذی اقدامات سے خوفزدہ ہو جائے گا؟ ٹرمپ نے اس کا جواب اپنی آنے والی انتظامیہ میں یہود اور اسرائیل نواز وزراء کی بھرتی سے دیا ہے جو اسرائیل کا ایسا دفاع کریں گے جیسا ماضی میں نہیں کیا گیا۔ اپنی انتخابی مہم میں ٹرمپ اسرائیل سے کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی جارحانہ کارروائیاں جلد مکمل کرے۔ مطلب اسرائیل غزہ میں جو ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور مسلمانوں کو مار رہا ہے تو اپنا ٹارگٹ جلد مکمل کرے۔

ٹرمپ سے امیدیں وابستہ کرتے اور مشرق وسطیٰ میں امن کی کوششوں کے لیے کردار ادا کرنے کے ٹرمپ سے آرزو مندوں کو کیا یاد نہیںکہ یہ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے امریکی قونصل خانے کو مقبوضہ یروشلم میں منتقل کردیا تھا۔ یہ اقدام مسلمانوں کے مقدس ترین شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔ ٹرمپ نے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی آباد کاری کی بھی حمایت کی تھی حالانکہ وہ عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی تھی۔ پرفریب معاہدۂ ابراہیم کے ذریعے ٹرمپ ہی نے اسرائیل کے عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کے راستے کشادہ کیے تھے۔

غزہ میں شہادتوں اور بربادیوں پر احتجاج کرنے والوں سے ناقدین کا کہنا ہے کہ اب رو کیوں رہے ہو اگر برداشت کرنے کی طاقت نہیں تھی؟ ناقدین سے سوال ہے کہ کون احتجاج کررہا ہے؟ کون رورہا ہے؟ کیا اہل غزہ رو رہے ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں۔ وہ آج بھی اسرائیل سے پورے جوش وخروش سے برسر جنگ ہیں، دنیا میں کسی بھی دوست اور عرب ملک سے کوئی بھی امید رکھے بغیر۔ رو امت مسلمہ رہی ہے، آنکھیں پرنم امت مسلمہ کی ہیں،

اپنے ان غدار حکمرانوں کی غیرت کی موت پر جن کے پاس اسلحے کے پہاڑ ہیں، دنیا کی بہادر ترین افواج ہیں لیکن مسلمانوں کی حمایت میں وہ جنہیں متحرک نہیں کرتے۔ جو خاموش تماشائیوں کی طرح امت کی بربادی دیکھ رہے ہیں اور پرفریب اجلاسوں کے ذریعے امت و دھوکہ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ دو ارب مسلمانوں کو شہادتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تو وہ مقام ہے ہر مسلمان جس کا آرزومند ہے۔