مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اور امریکا-ایران تعلقات

77

مجھے حال ہی میں اسٹمسن سینٹر کی جانب سے ایک ویبینار میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ یہ ادارہ عالمی امن و سلامتی کے فروغ کے لیے اپنی غیرجانبدارانہ تحقیقات اور پالیسی تجاویز کے حوالے سے مشہور ہے۔ 1989 میں قائم ہونے والے اس سینٹر کا مقصد بین الاقوامی تنازعات کا حل تلاش کرنا، ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانا، اسلحہ کے پھیلاؤ کو روکنا، اور خاص طور پر ایشیا پیسیفک میں امن و استحکام کو فروغ دینا ہے۔ اس ویبینار کا موضوع ’’امریکی انتخابات کے بعد… ایران کے ساتھ مصالحت یا تصادم؟‘‘ تھا، جس میں امریکا اور ایران کے تعلقات کے حوالے سے مختلف زاویوں سے گفتگو کی گئی۔ جواباً، میں نے ان کی جانب سے پیش کردہ موضوع پر اپنے خیالات پر مبنی مضمون ارسال کیا، جو ایران اور امریکا کے تعلقات میں امن کے امکانات اور موجودہ چیلنجز کا تجزیہ پیش کرتا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں موجودہ کشیدگی کے پس منظر میں، ایران کے ایٹمی عزائم، امریکا اور اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں، اور روس کے ساتھ ایران کے بڑھتے ہوئے تعلقات نے خطے میں ایک پیچیدہ صورتحال پیدا کردی ہے۔ اس تجزیے میں کوشش کی گئی ہے کہ امریکا- ایران تعلقات کے تنائو کا تفصیلی جائزہ لیا جائے اور امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں کے اثرات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ایک ممکنہ پْرامن حل کے لیے تجاویز پیش کی جائیں تاکہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کا قیام ممکن بنایا جا سکے۔

مشرق وسطیٰ میں امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں کے اثرات: امریکا اور اسرائیل نے اپنی طویل عرصے سے جاری پالیسیوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں سیاسی اور فوجی مداخلت کی ہے، جس سے فلسطین، عراق، شام، اور یمن میں عدم استحکام کو ہوا ملی ہے۔ اسرائیل کے حق میں امریکا کی یکطرفہ پالیسیوں اور دیگر علاقائی طاقتوں کو محدود کرنے کی کوششوں نے خطے میں طاقت کے توازن کو خراب کیا ہے، جس سے علاقائی ممالک نے اپنی سیکورٹی کے بارے میں خدشات محسوس کیے ہیں۔ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے دفاعی صلاحیتوں اور امریکا کے ساتھ اس کی قریبی شراکت داری کے پیش نظر ایران نے اپنے آپ کو مسلسل خطرے میں محسوس کیا ہے۔ اسرائیل کا غیر اعلانیہ جوہری پروگرام اور امریکا کی اس پر خاموشی ایران کو اپنی دفاعی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے اور جوہری طاقت کے حصول کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ایران کے نقطہ نظر سے، اس کا مقصد خطے میں اپنی بقاء کو یقینی بنانا ہے۔ ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں نے اس کی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے، مگر ان سے ایران کی مزاحمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایران کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ امریکی پابندیاں غیر منصفانہ ہیں اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں، جس سے خطے میں امریکا کی موجودگی اور اس کے مقاصد پر شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔

خطے میں پائیدار امن کے لیے امریکا اور ایران، کو ایک جامع اور متوازن حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے: امریکا اور ایران کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لیے ابتدائی قدم کے طور پر، دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی سیکورٹی خدشات کو تسلیم کرنے اور کھلی بات چیت شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا کو ایران کے دفاعی اور معاشی تحفظات کا احترام کرنا چاہیے، جبکہ ایران کو اپنے جوہری عزائم کو محدود کرنے کے لیے عالمی برادری کو قابل ِ اطمینان اقدامات فراہم کرنے چاہئیں۔ امریکا اور اسرائیل کو اپنی علاقائی پالیسیوں میں توازن پیدا کرنا ہوگا، تاکہ خطے میں دیگر ممالک کے حقوق اور خودمختاری کو تسلیم کیا جا سکے۔ فلسطین کے مسئلے کا منصفانہ حل تلاش کرنا اور اس پر عالمی رائے کو قبول کرنا نہ صرف خطے کی سیکورٹی کو مضبوط کرے گا بلکہ ایران جیسے ممالک کے سیکورٹی خدشات کو بھی کم کر سکتا ہے۔

اقتصادی پابندیاں نرم کرنا: اگر ایران اپنے ایٹمی پروگرام پر بین الاقوامی قوانین کے مطابق عمل کرنے پر راضی ہو تو امریکا کو ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمی لانی چاہیے۔ یہ اقتصادی تعاون ایران کے عوام کے لیے امید کی کرن بن سکتا ہے اور ایران کو خطے میں استحکام کی پالیسی اختیار کرنے پر مائل کر سکتا ہے۔

کثیر الطرفی مذاکرات کا انعقاد: مشرق وسطیٰ میں موجودہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے امریکا، ایران اور دیگر علاقائی طاقتوں کے درمیان کثیر الطرفی مذاکرات کا انعقاد ناگزیر ہے۔ ان مذاکرات میں چین، روس، اور یورپی یونین کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ سب مل کر ایک ایسا لائحہ عمل تیار کریں جو خطے میں امن و استحکام کو فروغ دے سکے۔ عوام کے درمیان رابطے بڑھانے کے لیے امریکا اور ایران کو مشترکہ ثقافتی اور تعلیمی پروگراموں کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانا چاہیے۔ عوامی سطح پر دوستانہ رابطے اور تعلیمی تبادلے دونوں ممالک کے شہریوں میں ایک دوسرے کے بارے میں سمجھ بڑھانے اور عدم اعتماد کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے لیے ضروری ہے کہ امریکا اور ایران، سمیت تمام متعلقہ فریقین اپنے اپنے رویے میں توازن پیدا کریں اور ایک دوسرے کے خدشات کو تسلیم کریں۔ ایک سخت گیر پالیسی صرف خطے میں مزید انتشار اور عدم استحکام کو بڑھا سکتی ہے، جبکہ ایک جامع اور پْرامن حکمت عملی نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک روشن مستقبل کا ضامن بن سکتی ہے۔