ذیا بطیس سے بچاؤ کیلیے ڈائیا بٹیزاور صحت کہانی کے درمیان مل کر کام کرنے کا معاہدہ

180
Agreement to work together

کراچی: پاکستان کو ذیابطیس جیسے ملک مرض سے بچانے کے لیے ڈسکورنگ ڈائیابٹیز اورصحت کہانی کے مابین مل کر کام کرنے کا معاہدہ طے پا گیا۔ ڈسکورنگ ڈائیابٹیز کے منیجنگ ڈائریکٹر محسن شیراز اور صحت کہانی کی سی ای او ڈاکٹر سارہ ظفر نے مفاہتی یادداشت پر دستخط کیے۔

ڈسکورنگ ڈائیابٹیز کے منیجنگ ڈائریکٹر محسن شیرازنے کہا کہ پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے، جوعوامی صحت کے لیے اہم چیلنج ہے، ذیابطیس کی پیچیدگیوں کے سبب لاکھوں لوگ معذور اور انتقال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریباً تین کروڑ تیس لاکھ لوگ ذیابطیس کا شکار ہیں اور ہر سال یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔ 2045 تک ذیابطس کے مریضوں کی تعداد 7 کروڑ 83 تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹروں کی قلت ہے۔یہی وجہ ہے کہ صحت کہانی اور ڈسکورنگ ڈائیابٹیز کے مابین معاہدہ طے پایا ہے کہ اب صحت کہانی بھی ہمارے مشن کو ساتھ لے کر چلے گی۔

انہوں نے کہا کہ ڈسکورنگ ذیابطیس 2021 میں فارم ایوو نے شروع کیا، اس کا مقصد پاکستانیوں ذیابطیس کے مرض سے بچانا، ذیابطیس کی تشخیص اور اس مرض کا شکار لوگوں اس کی منیجمنٹ کے بارے میں بتانا ہے۔ ہم تین سال کے دوران 85 لاکھ لوگوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں ، ذیابطیس کا شکار 9 لاکھ 48 ہزار سے زیادہ لوگوں کی نگرانی کر رہے ہیں، 4 لاکھ 52 ہزار 170 لوگوں کو لیب تک رسائی فراہم کی اور 3 لاکھ 45 ہزار لوگوں کو مفت مشورہ فراہم کیا۔

محسن شیراز کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال مصنوعی ذہانت کا چیٹ بوٹ تیار کیا جس کے ذریعے ذیابطیس کا شکار 36 ہزار مریضوں کی نگرانی کر رہے ہیں، ڈائی بوٹ ایک منفرد چیٹ بوٹ ہے جو ذیابیطس کی دیکھ بھال کے لیے ذاتی معاون کی حیثیت سے کام کرتا ہے، جو ذیابیطس کے انتظام کے لیے ایک انقلابی ٹول ہے۔

صحت کہانی کی سی ای او ڈاکٹر سارہ سعید خرم نے کہا کہ پاکستان میں خواتین ڈاکٹر بننے کے بعد فیلڈ کو خیرباد کہہ دیتی ہیں، مرد ڈاکٹروں کی اکثریت بیرون ملک چلی جاتی ہے جس کے نتیجے میں ملک میں ڈاکٹروں کی قلت ہے، صحت کہانی ایسی خواتین ڈاکٹرز جو فیلڈ چھو کر گھر بیٹھ گئی ہیں انہیں ٹیلی میڈیسن کے ذریعے گھر بیٹھ کر کام کے مواقع فراہم کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صحت کہانی ایپ پر ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے ڈاکٹرز موجود ہوتے ہیں جن سے آن لائن مشورہ کیا جا سکتا ہے، ہماری ای فارمیسیز موجود ہیں، آن لائن لیب بک کر سکتے ہیں اور کسی چوبیس گھنٹے کیئر کی ضرورت ہے ہم ہوم سروس بھی فراہم کرتے ہیں،صحت کہانی ایپ پر انفرادی کنسلٹیشن بھی ہے اور فیملی بھی سروسز لے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں کوئی ڈاکٹر نہیں ہم وہاں مڈوائف کلینک بناتے ہیں، ایسے کلینکس کو آن لائن آپریٹ کرتے ہیں، ہمارے پاس ساڑھے سات ہزار ڈاکٹرز ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین کی ڈاکٹر بھی ہیں، ہم چالیس لاکھ مریض ٹیلی میڈیسن کے ذریعے دیکھ چکے ہے ہیں، ہمارے 60 کلینک کام کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں بیسک ہیلتھ یونٹ کا کانسیپٹ ختم ہوتا جا رہا ہے، ان کا کردار ہم ادا کر رہے ہیں، کیونکہ کھانسی نزلہ زکام میں بھی لوگ ٹرشری کیئر اسپتال پہنچ جاتے ہیں، ایسے مریضوں کو ہم کیٹر کر رہے ہیں تاکہ ٹرشری کیئر اسپتالوں پر دبائو نہ پڑے۔

صحت کہانی کی کو فائونڈر ڈاکٹر عفت ظفر نے کہا کہ میری والدہ کو بھی ذیابطیس تھی والد کو بھی ہےاور تقریبا ہر گھر میں کسی نہ کسی ذیابطیس ہے، بہت سے لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ انہیں ذیابطیس ہے کیونکہ اس سے کوئی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور اندر ہی اندر سے آپ کے اعضاء خراب ہوتے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ٹیلی میڈیسن سے جو مریض آتے ہیں ان کی اکثریت ڈایبٹیز کا بھی شکار ہوتے ہیں، ہم نے ڈسکورنگ ڈائیبٹیز کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور انکے ڈائی بوٹ کو استعمال کریں گے اور صحت کہانی ایپ سے اس کو کنیکٹ کریں گے تاکہ ہماری ایپ پر آنے والے مریض ڈائی بوٹ سے خود کو اسکرین کریں اور انہیں ان کا ڈائیبٹیز کا اسٹیٹس معلوم ہو کہ وہ ذیابطیس کا شکار ہیں یا ان کو مستقبل میں ذیابطیس ہو سکتی ہے تاکہ ان کا جلد علاج شروع کیا جا سکے۔

ڈاکٹر عفت ظفر نے کہا کہ اس کے نتیجے میں لوگ مفت اسکرین اور مفت ڈاکٹر تک رسائی اور دوائیں حاصل کرسکتے ہیں، تاکہ ذیابطیس کا شکار مریضوں کو پیچیدگی سے بچاکر ان کو مستقبل معذوری سے بچایا جا سکے، ان کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکے ۔