پی آئی اے کی نیا ڈوبے گی، اڑے گی یا ڈولتی رہے گی؟

291

پی آئی اے جو کبھی تھا عالم میں انتخاب۔۔۔ ہم نوحہ خواں ہیں اسی کے بے حساب۔۔ یہ کوئی شاعری ہے نہ کوئی زبر دستی کی تک بندی بلکہ اسے درد دل کی ایک گداز صدا سمجھ لیجیے۔ جب کسی بیمار دوست یا رشتہ دار کی آپ عیادت کرنے جاتے ہیں تو اس ہڈیوں کے ڈھانچے کو دیکھ کر آپ ایک ایسے غم کی کیفیت مبتلا ہوجاتے ہیں جس میں اس کے گھر والوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوتا اس لیے کہ آپ نے اس کی صحت، اس کی جوانی، اس کی شوخیاں، اس کے قہقہے، اس کی خوشحال زندگانی کے ڈھنگ، دوستوں کی محفل میں اس کا مرکز نگاہ ہونا یہ سب آپ نے دیکھا ہوا تھا۔ اس وقت آپ بڑے دکھ بھرے انداز میں دوستوں سے کہتے ہیں کیا اس کی حسین جوانی کا دور تھا اور اب کیا حالت ہوگئی ہے اس وقت آپ سوچتے ہوں گے کاش کوئی ایسا حکیم یا ڈاکٹر مل جائے جو اس کے مرض کو ٹھیک کردے۔ ایسے میں آپ کو وہ لوگ زہر لگیں گے جو بظاہر تو عیادت کررہے ہوں گے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہے ہوں گے کہ ہمارے پاس لے آئو ہم اسے ٹھیک کردیں گے۔ آپ اس مذاق پر غصہ ہی ہوں گے کہ ایک مریض اپنے مرض کی تکلیف کا شکار ہے اور ان کو مذاق کی سوجھی ہوئی ہے بالکل یہی معاملہ اس وقت پی آئی اے کا ہے۔

جو اپنی پارٹی صحیح سے نہیں چلا سکے، جو اپنے صوبے ٹھیک سے نہیں چلا پا رہے ہیں، ان کے صوبے میں کروڑوں بچے اسکول نہیں جا پا رہے ہیں وہ کہہ رہیں کہ ہم پی آئی اے چلائیں گے پھر جس بولی دہندہ نے دس ارب کی بولی لگائی ہے اس نے اور زیادہ بھونڈا مذاق کیا ہے ایک اخبار میں، میں نے پڑھا تھا کہ یہ لینڈ مافیا کے لوگ ہیں اور انہوں نے نقد پیسے دینے کے بجائے اتنی مالیت کے پلاٹ دینے کی بات کی ہے۔ یہ ہماری حکومت کے لیے شرم سے ڈوب جانے کا مقام ہے کہ کھربوں روپے کے اثاثے رکھنے والے ادارے کی اس طرح بے توقیری کی جارہی ہے اس طرح کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے والے لینڈ مافیا کے لوگوں کو عبرت کی مثال بنانے کی ضرورت ہے۔ ادارے کیوں اور کیسے تباہ ہوتے ہیں ہمیں اس کی وجوہات جاننا ہوں گی کہ یہی پی آئی اے کسی زمانے میں اربوں روپے سالانہ کا منافع کما کر دیتا تھا آج اس کی یہ حالت کیسے ہو گئی کہتے ہیں کرپشن ادارے کو کھا گئی، کرپشن تو اس وقت پورے ملک کو کھا رہی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں ایسے با صلاحیت لوگ نہیں ہیں جو اداروں کو محنت اور ایمان داری سے چلائیں اور نقصان میں جانے والے اداروں کو نقصان سے نکال کر منافع کی سطح پر لے آئیں۔ ابھی ہم نے پچھلے ماہ اتنی بڑی بین الاقوامی شنگھائی کانفرنس کی ہے جس کے حسن انتظام کی پوری دنیا نے تعریف کی ہے اس پر مضامین لکھے گئے ہیں۔ پھر کیا ہم بھول گئے کہ یہی پی آئی اے، ریلوے کا محکمہ اور اسٹیل مل ایک زمانے میں منافع بخش ادارے تھے ہمارے ایک رشتے دار ریلوے میں ملازم تھے وہ بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں ریلوے کی آمدنی سے پاکستان کا بجٹ بنتا تھا۔ اب سنا ہے سرکار کسی ایسے باصلاحیت فرد کی تلاش میں ہے جو اس ادارے کو اپنے پیروں پر کھڑا کردے۔

ہمارے یہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے ایسا فرد مل جائے گا لیکن اس سے پہلے دو شرائط ہیں پہلی تو یہ کہ یہ فرد ہائر اینڈ فائر کے معاملے میں بااختیار ہو کہ اگر کسی کو جاب سے نکال دیا تو کسی صدر، کسی وزیر اعظم اور کسی آرمی چیف کو پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ اس کو کیوں نکالا اور کسی کو جاب پر رکھا ہے تو کوئی یہ نہ پوچھے کہ اسے کیوں رکھا ہمارے آدمی کو کیوں نہیں رکھا۔ دوسری اہم بات یہ کہ ان نکات کو تلاش کیا جائے کہ جن کی وجہ سے یہ ادارہ بستر مرگ تک پہنچ گیا۔ جن لوگوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے مرض پیدا ہوا یعنی ادارہ نقصان میں جانے لگا ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی اور جن لوگوں نے مرض کا علاج کرنے کے لیے دوائیں دیں اس سے مرض کیوں ٹھیک نہیں ہوا بلکہ اور بڑھ گیا ان کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا۔ ان دنوں اس حوالے سے جو مضامین شائع ہوئے ان سے کچھ اہم نکات سامنے آئے ہیں تو کسی فرد یا ادارے کے ذمے داری سے پہلے ان وجوہات پر غور و خوض ضروری ہے۔ کہ جن کی وجہ سے آج ادارے کی یہ حالت ہوگئی ہم نے ذمے داران کو کیا سزائیں دیں اور نہیں دی گئیں تو کیوں اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

پہلی اہم بات یہ کہ ادارے میں خالی آسامیوں کو پر کرنے لیے جو پروسیجر ڈیزائن کیا گیا تھا کہ اخبارات میں اشتہار آئے، تحریری امتحان ہو انٹر ویو ہو پھر امیدواروں کا دیانت داری سے چنائو ہو راقم نے خود سن ستر کی دہائی میں پی آئی اے میں جاب کے لیے تحریری امتحان دیا تھا جو پاس تو کرلیا تھا لیکن کوٹا سسٹم کا شکار ہوگئے۔ خیر یہ تو ایک اضافی بات تھی اصل سوال یہ ہے کہ ادارے میں سفارش اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی کے سلسلہ کب سے اور کس نے شروع کیا۔ سن اسی کی دہائی میں ایک رپورٹ اخبارات میں شائع ہوئی تھی کہ پی آئی اے کا طیارہ دنیا بھر میں ہر 6 منٹ بعد لینڈ ؍ ٹیک آف کرتا ہے۔ لیکن پھر کیا ہوا اندرونی و بیرونی سازشیں رنگ لائیں اور گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ کچھ ایسے عجیب و غریب فیصلے ہوئے جن کی منطق اب تک سمجھ میں نہیں آتی ائر لائن کارگو سروس کیوں بند کی گئی جس کی وجہ سے آمدنی کا گراف پچاس فی صدی نیچے آگیا۔ جنرل ضیاء کے دور میں مارشل لا ضابطے کے تحت بڑے پیمانے پر ملازمین کی چھانٹی ہوئی انہیں ان کے واجبات کے علاوہ گولڈن شیک ہینڈ کے طور پر الگ سے بھی رقوم دی گئیں اب سے چالیس سال قبل ایک ایک فرد کو کئی کئی لاکھ روپے ملے تھے جو کسی کے نئے کاروبار کے آغاز لیے بہت تھے۔ لیکن پی آئی اے کو اربوں روپوں کا بوجھ برداشت کرنا پڑا پھر وہ جو کہتے ہیں کہ اس کی ماں نے خصم کیا برا کیا کرکے چھوڑ دیا اور برا کیا 1988 میں جب بے نظیر وزیراعظم بنی تو انہوں نے تمام نکالے جانے والے ملازمین کو واپس اسی منصب پر بحال کیا اور درمیان کی چار پانچ سال مدت کی تنخواہیں بھی دی گئیں اس طرح مزید اربوں روپوں کا بوجھ پی آئی اے کو برداشت کرنا پڑا۔ ایسا ہی کام بعد میں نواز شریف کے دور میں شاہد خاقان عباسی نے بھی کیا جب ہزاروں نکالے جانے والے ملازمین کو چھتیس ماہ کی گراس سیلری یکمشت ادا کی گئی اور پھر ان کی ریٹائر منٹ کی رقوم جو اربوں میں بنتی تھی یکمشت ادا کی گئیں جس سے ادارے کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا اور پھر ادارہ چلانے کے لیے بینک سے قرض کا سلسلہ شروع ہوا۔

اس سے قبل کچھ اور پراسرار چیزیں ہوئیں جن پر ابھی تک پردہ پڑا ہے۔ پی آئی اے کا فلائٹ کچن پاکستان میں لینڈ کرنے والی چالیس ائر لائنوں کو کیٹرنگ فراہم کرتا تھا کروڑوں کی آمدنی ہوتی تھی وہ ختم ہوگیا، دوسرا یہ کہ پی آئی اے کا ٹرینگ سینٹر اتنا جدید اور سائنٹفک بنیادوں پر تھا کہ باہر کے ممالک سے انجینئرز، ٹیکنیشنز اور کاک پٹ کریو تربیت لینے آتے تھے اس سے کروڑوں روپے زر مبادلہ حاصل ہوتا تھا، پی آئی اے کا انجینئرنگ سیٹ اپ اتنا بے مثال تھا کہ مشرق وسطیٰ، افریقا اور بعض یورپی ممالک کے جہازوں کی سی چیک اور ڈی چیک اوور ہالنگ ہوتی تھی جس سے پی آئی اے کو اربوں روپے کی آمدنی حاصل ہوتی تھی اس کی بنیادی وجہ پی آئی اے کے پاس دنیا کے مانے ہوئے انجینئرز اور ٹیکنیشنز تھے جو کام دوسری جگہ ڈیڑھ ماہ میں ہوتا وہ یہاں بیس دن میں ہوجاتا جس سے متعلقہ ائر لائن کو کروڑوں کا فائدہ ہوتا تھا۔

یہ تو ادارے کی سائیڈ کی آمدنیاں تھیں پی آئی اے کے بڑے بڑے شعبوں میں سے ہر ایک کی اتنی آمدنی ہوتی تھی کہ پائلٹس سمیت تمام ملازمین کی تنخواہوں کے لیے کافی ہوتی۔ پی آئی اے کے کراچی بکنگ آفس المعروف کے بی او کی سیل ہی تمام ملازمین کی تنخواہوں سے زیادہ تھی۔ ماضی قریب میں جب عمران خان وزیر اعظم تھے ان کے ایک وزیر نے دنیا کو بتادیا کہ پی آئی اے کے پائلٹس جعلی اسناد پر جہاز اڑا رہے ہیں اس کا ردعمل یہ ہوا کہ پی آئی اے کی یورپ کی فلائٹس تقریباً بند ہوگئیں جس کا بھارت کی فضائی کمپنیوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔

نجکاری کمیشن نے 85 ارب روپے کی کم سے کم بولی کی حد رکھی تھی لیکن اس کے مقابلے میں ایک کمپنی نے دس ارب کی بولی دی جسے مسترد کردیا اب معاملہ دوبارہ کابینہ کمیٹی کے پاس جائے گا ایک بات تو یہ کہ اوورسیز پاکستانیوں نے ایک سو تیس ارب کی پیشکش کی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی یقین دلایا ہے کہ ملازمین کو نہیں نکالا جائے گا ان کی تنخواہوں میں فوری طور پر تیس فی صد اضافہ کیا جائے گا اور پانچ سال کے اندر ان کی تنخواہیں ڈبل کردی جائیں گی حکومت کی طرف سے اس پیشکش کا کوئی جواب نہیں آیا وہ شاید اس کو بھی ایک مذاق سمجھ رہے ہوں دوسری خبر یہ ہے کہ حکومت پی آئی اے کو قطر یا ابوظبی کو جی ٹو جی بنیاد پر چلانے کے لیے اس کی کوئی تفصیلات سامنے نہیں ہے اور پھر تیسری چیز یہ کہ پی آئی اے کی یہ نیّا ایسے ہی ڈولتی رہے گی ہماری دعا ہے کہ حکومت اسے خود چلائے اور ایسے باصلاحیت فرد کو تلاش کیا جائے جو اس ادارے کو واپس اپنی سابقہ پوزیشن میں لے آئے یہ کام مشکل تو بہت ہے لیکن ناممکن نہیں ہے لیکن ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکمراں طبقہ اپنے ہی کسی پسندید شخصیت کو یہ ادارہ حوالے کرنا چاہتی ہے کہ اب تو عدلیہ سے بھی کوئی خطرہ نہیں مقتدر قوتیں بھی ساتھ ہیں اور اپوزیش کمزور اور اپنے ہی مسائل میں الجھی ہوئی ہے اس لیے جو چاہیں فیصلہ کرلیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔