Win Win Situation

286

میں: آج تو بڑے خوش نظر آرہے ہو، ایسی کیا بات ہوگئی؟
وہ: کوئی ایک بات ہو تو بتائوں، پچھلے چند ماہ میں اتنی مرادیں پوری ہوئی ہیں کہ خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔ حلوائی ہے کہ مٹھائیاں بنائے چلے جارہا ہے جسے کچھ لوگ بانٹ کے خوش ہورہے ہیں اور بعضے کھا کھا کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ ابھی چند دن پہلے ہی کی تو بات ہے جب بڑی تگ و دو اور بعض موقع پرستوں کی منت سماجت کے بعد خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا اور ایک اور ترمیم کروڑوں محب وطن پاکستانیوں کو ایک غمگین خوشی دے گئی۔ بھر بھر کے دلیلیں دی گئیں، صفائیاں پیش کی گئیں، ہم عدالتوں پر سے بوجھ کم کررہے ہیں، تاکہ منصف زیادہ دل جمعی اور یکسوئی کے ساتھ ماضی کے مقابلے میں اتنے بہتر فیصلے کریں کہ انصاف کی شفافیت سب کو نظر آئے، ایک صاحب نے بڑے طنطنے سے کہا کہ ہم عدلیہ کے بے لگام گھوڑے کو نکیل ڈالنے میں کامیاب ہوگئے۔ مجھے اس موقع پر ڈربی کی ریس کا ’’جوکی‘‘ بڑی شدت سے یاد آرہا ہے۔ جوکی ایک ماہر اور پیشہ ورگھڑ سورا ہوتا ہے جو اپنی مہارت سے ریس جیت کر گھوڑے کے مالک کے لیے اعزازو اکرام کا باعث بنتا ہے۔ اصل فائدہ تو گھوڑے کے مالک کا ہوتا ہے اور جوکی کو بس اس کا طے شدہ معاوضہ ادا کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ڈربی کی اس گھڑ دوڑ میں سب سے اہم کردار جوکی ہی کا ہوتا ہے، ا س کھیل میں جو جتنا مشاق گھڑ سوار ہوتا ہے اس کھیل کے اصل کھلاڑی اس کو منہ مانگے پیسے دے کر اپنے لیے چن لیتے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود بیچارہ جوکی ساری عمر اسی خوش فہمی میں گزار دیتا ہے کہ مالک کی نظروں میں اس کی بڑی قدرو قیمت ہے۔ اگر غور کرو تو ہمارے وطن عزیز کے اصل کرتا دھرتا برسوں سے اسی اصول پر عمل پیرا ہیں۔ اب معاملہ عدالتوں میں خاص انتظام کا ہویا معاشی عدم استحکام کا، بدعنوانی کا عنوان بنے محکموں اور اداروںکے سدھار کے لیے بنائی گئی اصلاحات کا ہو یا چارو ناچار اُن کے نیلام عام کا، اپنی مرضی کی قانون سازی کا ہو یا ماضی میں کی گئی کسی غلطی کے آخری انجام کا۔ آمریت ہو یا فریب ِ جمہوریت کہنہ مشق جوکیوں کی شکل میںیہ پیشہ ور افراد مختلف جھنڈوں اور نشانوں کے ساتھ ہر دور اور ہر موقع پر گھوڑوں کے مالکان کو ہمیشہ بخوشی دستیاب رہے ہیں۔ اور جب معاملہ فقط جوکیوں کی باری لگنے کا ہو تو جس کا چاہے انتخاب کرلو، جیت کے بعد بظاہر گھوڑے پر جوکی جشن منائے گا، ہار پھول اور دادو تحسین سمیٹے گا مگر اصل کامیابی تو وہی کرتا دھرتا سمیٹے گا جو میدان میں تماشائیوں کی صف میں بیٹھا اس مقابلے سے لطف اندوز ہوتا رہا ہے۔ اسی کو انگریزی میں Win Win Situation کہتے ہیں۔ اس صورت حال کی سب سے اچھی مثال سن ۷۱ء میں پیش آئی تھی جب آدھا ملک ہارنے کے بعد بھی ہم پورا پاکستان جیت گئے تھے۔ اور کہنے والے کہتے ہیں کہ اس وقت کا ’جوکی‘ ملکی تاریخ کے تمام جوکیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تربیت یافتہ، شاطر اور تجربہ کار تھا ورنہ اتنی بڑی کامیابی شاید ممکن نہ ہوپاتی۔ اب تم اس مثال سے ہماری نام نہاد موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی مماثلت نہ ڈھونڈنے لگ جانا۔

میں: نہیں مجھے تو اس موقع پر حضرت میرؔ یاد آگئے
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا

وہ: کیا برمحل شعر یاد دلادیا۔ ویسے بھی موجودہ حالات تک آتے آتے اب معاملات اتنے ہموار اور خوشگوار ہوچکے ہیں کہ صورت حال ’’من ترُا حاجی بگویم، تومرُا حاجی بگو‘‘ کے مصداق ہوگئی ہے۔ انجمن ستائش باہمی کا ماحول ہے کیوں کہ سرکار نے اس بار دودھ میں سے مکھی کو نکال کر دودھ سڑنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا اور مکھی کو نئی زندگی دے کر منصب ِ سعادت عطا کردیا ہے۔ تو اب ہم اتنے احسان فرامو ش بھی نہیں ہر بار ایکسٹینشن کے جھمیلے کو بھانت بھانت کے ٹی وی چینلوں کے لیے ریٹنگ بڑھانے کا وسیلہ بنادیں۔ پانچ سالہ مدت کی یکبارگی قانون سازی کرکے سارا ادھار چکتا کردیا۔ عدالت کو بار بار کار ِ مداخلت کی زحمت سے بچانے اور سپہ سالارِ اعلیٰ کی توسیعی خفگی کو مٹانے کے لیے جس تندہی اور چابک دستی سے یہ تمام امور بہ طریق احسن سرانجام پائے اس کی نظیر ماضی میں شاید ہی کہیں نظر آئے۔ بقول داغ ؔ

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

میں: شعر تو اچھا ہے مگر میرے خیال سے تو اب سب کچھ کھل کے بلکہ دھڑلے سے ہو رہا ہے۔ چلو اچھا ہے نا سارے معاملات ایک نکتے پر مرتکز ہوگئے ہیں عوام کے کسی مطالبے یا کسی گمبھیر اقتصادی صورت حال میں زیادہ سوچ بچار کا جھنجھٹ رہا نہ باربار مختلف معاملات کی تفتیش وتحقیق کے لیے کمیٹیاں بنانے کا تکلف۔

وہ: ہاں تم صحیح کہہ رہے ہو ابھی چند دن پہلے ہمارے سپہ سالار ِ اعلیٰ سعودی ولی عہد سے ملاقات کررہے تھے، انہیں دیکھ کر جہاں میرے جوش ِ ایمانی اضافہ ہوا وہیں خوشی بھی بہت ہوئی کہ اس ملاقات میں اسرائیل کے خلاف کوئی حکمت عملی وضع کی جارہی ہوگی اور فلسطین کے مظلوم عوام کا دست وبازو بننے کے لیے امت مسلمہ کی ایک مشترکہ فوج کی تشکیل کا مرحلہ طے کیا جارہا ہوگا۔ لیکن ایک بار پھر میرے ارمانوں پر اوس پڑ گئی وہاں تو پاکستانی معیشت کی بحالی کے لیے سعودی عرب کے ساتھ کسی تجارتی پیش رفت کا لائحہ عمل زیر غور تھا۔

شاید اسی لیے کچھ دن قبل ہمارے وزیراعظم صاحب نے گرتی معیشت کی بحالی کے ضمن میں سپہ سالار ِ اعلیٰ کی شبانہ روز محنت کی کھل کے تعریف کی تھی۔

میں: ویسے تم اس نظم ونسق سے اتنے نالاں کیوں ہو؟ جب دیکھو شکوہ بہ لب رہتے ہو۔

وہ: میں ناراض کہاں ہوں میں تو بہت خوش ہوں بھائی، لگے ہاتھوں ایک اور اہم کام بھی تو ہوا ہے، ۲۰۲۷ء تک ملک کے معاشی نظام سے سود کے مکمل خاتمے کی شق بھی اس ترمیمی مسودے میں شامل کرلی گئی ہے۔ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ کامیابی اس حکومت کے مذاکراتی عملے کی ہے یا اسے شامل کرانے پہ مُصربازی گروں کی۔

میں: لیکن جہاں تک میری یادداشت ساتھ دے رہی ہے، ۷۳ء کے آئین میں واضح طور پر ایک شق سود یعنی ربا کے خاتمے کے لیے موجود ہے جس میں اس بات کو ریاست کی ذمے داری قرار دیا گیا ہے کہ وہ معیشت کو جلد از جلد ربا سے آزاد کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گی، تو پھر اس موقع پر اس ترمیم میں اس شق کے اضافے کی چنداں ضرورت نہیں تھی، بلکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 51 سال گزرنے کے بعد بھی آئین کی اس شق پر عمل نہ کرنے والے نویں پرانے تمام قانون سازوں کو عدالت کے کٹہرے میں لاکر باز پرس کی جاتی کہ کیا یہ آئین شکنی نہیں ہے؟

وہ: تمہاری بات بالکل درست ہے کہ آئین شکنی ایک قابل ِ تعزیر جرم ضرور ہے لیکن اگر صحیح معنوں میں ایسا ہوتا تو ہم اب تک یہ Win Win Situation انجوائے تھوڑی کررہے ہوتے۔