حریت کانفرنس، حسرت کی تصویر

383

کشمیر میں عمر عبداللہ حکومت کے قیام کے ہفتے ہی پانچ سال بعد حریت کانفرنس کی سوکھی ہوئی شاخ بھی اس وقت ہری ہونے کے آثار دکھائی دیے جب کشمیر کے موجودہ سیاسی منظر سے غائب اور حالات سے غیر متعلق اس اتحاد کے دو راہنمائوں پروفیسر عبدالغنی بٹ اور بلال غنی لون نے سری نگر میں اپنی رہائش گاہ پر پانچ سال سے نظر بند چیرمین میر واعظ عمر فاروق سے ایک غیر سیاسی اور سماجی ملاقات کی۔ اس فوٹو سیشن اور اس ملاقات سے جہاں ماضی کی حریت کانفرنس کی ایک دھندلی سی شبیہ بنتی دکھائی دی وہیں اس نشست کے اہتمام اور اجازت اور فوٹو سیشن میں یہ پیغام مستور تھا کہ اب حریت کانفرنس کو اگر دوبارہ کشمیر کے سیاسی کینوس میں کوئی اسپیس ملے گی تو وہ سری نگر حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے اس لیے حریت کانفرنس کو اس سسٹم کو دوبارہ کمزور کرنے کا راستہ اپنانا نہیں چاہیے۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے کیونکہ بھارت نے پانچ اگست کے بعد خوف کا جو ماحول بنا رکھا ہے اس میں حریت کانفرنس سمیت کسی تنظیم کے لیے سیاسی سرگرمی جاری رکھنا تو درکنار کھلے بندوں اپنا مافی الضمیر بیان کرنا بھی ناممکن ہے۔ اسے وقت کا اُلٹ پھیر ہی کہا جاسکتا ہے کہ ایک دور تھا جب فاروق عبداللہ اور مفتی سعید جیسے کشمیری سیاست دان حریت کانفرنس کی طرف امید افزا نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ وہ دہلی اور اسلام آباد کے ساتھ تکونی مذاکرات کرکے انہیں کس قدر اسپیس دلائے گی۔ انہیں یہ یقین تھا کہ حریت کانفرنس سری نگر کے لیے جو سیاسی اسپیس حاصل کرے گی اسے انتظامی اور سیاسی طور پر روایتی سیاسی جماعتیں ہی استعمال کریں گی۔

یہ نوے کی دہائی کے وسط کے ماہ وسال تھے جب حریت کانفرنس کشمیریوں کی تنظیم آزادیٔ فلسطین (پی ایل او) طرز پر اُبھر رہی تھی۔ عسکریت پسندی کے طوفان میں بھارت اور مغرب بھی اسے ایک ایسی سیاسی قوت کے طور پر دیکھتے تھے کہ جس سے وقت پڑنے پر بات کی جا سکتی ہے۔ پاکستان بھی اس اتحاد کو کشمیریوں کا نمائندہ اتحاد قرار دیتا ہے۔ اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سفارت کی راہوں پر انہیں اپنے سے دو قدم آگے رکھتی تھیں۔ نواب زادہ نصراللہ خان جیسی سینئر شخصیت کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی ترجمانی کرتے تھے۔ او آئی سی نے اسے مبصر کا درجہ دیا تھا اور اس فورم پر فلسطین کے بعد کشمیرکا نمبر آتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب بھارت بھی دہلی میں حریت کانفرنس کو دفتر قائم کرنے کی اجازت دینے پر مجبور تھا۔ حریت کانفرنس کی اس سیاسی اہمیت کے دور میں کشمیر کے بڑے اور روایتی سیاسی مفتی اور عبداللہ گھرانے غیر متعلق ہو کر رہ گئے تھے ان کی نظریں اب حریت کانفرنس پر تھیں کہ وہ انہیں اپنی سفارتی حیثیت اور سیاسی وزن کے ذریعے کتنی اسپیس حاصل کرکے دے گی۔ حریت کانفرنس عسکریت کے دبائو کی بنیاد پر اپنی اہمیت بڑھا رہی تھی۔ عین اسی دوران کشمیر میں سیاسی عمل کی بحالی پر دہلی اسلام آباد اور واشنگٹن میں خفیہ سرگرمیاں جاری تھیں۔ امریکا کا خیال تھا کہ کشمیر میں عسکریت در آنے کے بعد شروع ہونے والے سیاسی عمل کی ڈرائیونگ سیٹ حریت کانفرنس سنبھالے۔ اگر حریت بطور تنظیم نہیں تو بھی کسی مقبول اور مضبوط آزادی پسند چہرے کو سامنے آکر اس سیاسی عمل کو اوونر شپ دینی چاہیے۔ اس کے لیے قرعہ ٔ فال شبیر احمد شاہ کے نام نکل آیا تھا اور دہلی میں مقیم امریکی سفیر رابرٹ بلیک ول اس مقصد کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہے تھے۔ وہ دہلی اور اسلام آباد کے ساتھ بیک وقت رابطوں میں تھے اور حریت کانفرنس کی قیادت سے ان کی قربت تھی۔ شبیر احمد شاہ سے ان کی ملاقاتیں اور نامہ وپیام جاری تھا۔ یہ وہی دور تھا جب امریکا اسی حکمت عملی کے تحت شمالی آئر لینڈ میں آئرش ری پبلکن آرمی اور برطانوی حکومت کے درمیان ایک معاہدے پر تیزی سے کام کر رہا تھا۔ امریکی صدر بل کلنٹن فلسطین پر اوسلو معاہدہ کرانے کے بعد پراعتماد ہو کر یورپ میں شمالی آئر لینڈ اور جنوبی ایشیا میں کشمیر کے تنازعے پر ایک سمجھوتے کے لیے کام کر رہے تھے۔ وہ خود ایک بار کشمیر کو جنوبی ایشیا کا فلش پوائنٹ قرار دے کر مسئلے کی سنگینی کو اُبھار چکے تھے۔ یہ منصوبہ مکمل ہوتا تو کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے بجائے شبیر شاہ ہوتے۔ اس وقت فاروق عبداللہ ایک تھکے ہوئے اور عوام سے کٹے ہوئے سیاست دان تھے جو عسکریت کا آغاز ہوتے ہی استعفا دے کر انگلستان سدھار چکے تھے۔ اس کی نسبت شبیر شاہ عسکریت کے آغاز پر ہی سب سے زیادہ مقبول ہونے والے راہنما تھے اور تھکے ہوئے گھوڑوں پر شرط لگانے کا خطرہ کوئی بھی مول نہیں لیتا۔ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور یوں عالمی اور علاقائی حکمت کاروں کو فاروق عبداللہ پر ہی قناعت کرنا پڑی۔

اگلی دہائی میں تو حریت کانفرنس کی اہمیت کچھ اور بڑھ گئی کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پیس پروسیس کا آغاز ہو گیا اور پاکستان نے پورا زور اس بات پر صرف کیا کہ حریت کانفرنس کو کشمیریوں کی نمائندہ جماعت اور ایک فریق کے طور پر بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ایک میز پر بٹھایا جائے۔ بھارت سہ فریقی مذاکرات پر آمادہ نہیں تھا مگر اسے تکونی مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ تکونی مذاکرات کا مطلب سری نگر دہلی مذاکرات، سری نگر اسلام آباد مذاکرات اور دہلی اسلام آباد مذاکرات۔ اس عمل میں جہاں حریت کانفرنس کے وفود کی بھارتی حکمرانوں اٹل بہائی واجپائی اور من موہن سنگھ سے ملاقاتیں ہونے لگیں وہیں ان پر اسلام آباد کے دروازے بھی کھل گئے اور وہ جنرل پرویزمشرف سے بھی ملاقاتیں کرنے لگے۔ دوسری طرف مشرف اور من موہن بھی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کررہے تھے اور تھنک ٹینک اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بھی راز ونیا جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہ پیس پروسیس جنرل پرویز مشرف کی اقتدار سے بے دخلی کے ساتھ ہی انجام کو پہنچ گیا اور من موہن سنگھ بھی اس عمل سے الگ ہوگئے اور ممبئی حملوں کے بعد سارا منظر ہی بدل گیا۔ اسی دوران عرب بہار نے مشرق وسطیٰ اور خلیج میں ایک اتھل پتھل شروع کر دی اور یہ لہر سوشل میڈیا کی آمد کے بعد اس کے کامیاب استعمال کا نتیجہ تھی۔ خیال یہی تھا کہ سوشل میڈیا جہاں جہاں جائے گا بیداری اور بغاوت کا ایک طوفان اُٹھتا چلا جائے گا۔ ایسا ہی ہوا کشمیر میں بھی سوشل میڈیا کی آمد کے ساتھ ہی مقبول مزاحمانہ لہروں کے مختلف دور آنے لگے۔ جن میں ہر فیز پر حریت کانفرنس کی چھاپ اور گرفت نمایاں رہی۔ پانچ اگست کو مودی نے اس سارے عمل کی بساط ہی لپیٹ دی اور ایک ایسی بساط بچھادی گئی جس میں طاقت ہی اول وآخر اصول اور اسلوب تھا۔ اس نئی بساط میں حریت کانفرنس کا وجود، محاورے مطالبے سب متروک قرار پایا۔ صرف حریت کانفرنس پر ہی کیا موقوف پورے کشمیری سماج ہی کو حالات اور جبر کے ایک کنٹینر میں بند کر دیا گیا۔ اب پانچ سال بعد حریت کانفرنس کے شناسا چہرے ایک بار پھر ایک فوٹو میں دیکھے گئے تو امید سی بندھ چلی ہے کہ کشمیری عوام کے آزادی پسندانہ جذبات کے لیے بھی اس منظر پر کچھ گنجائش پیدا ہو سکتی ہے بھلے سے یہ عمر عبداللہ کے ہاتھوں ہی کیوں نہ ہو۔ اسی گردش دوراں کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا ہے کہ

زمانہ کہ زنجیرِ ایام ہے
دَموں کے اُلٹ پھیر کا نام ہے