بہاری پاکستان آئیں

440

یہ ہیں وہ لوگ جو دوہری ہجرتوں کا عذاب سہہ کر پاکستان آئے ہیں۔ جب پاکستان آزاد ہوا 1947 میں تو بہار سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان پہنچے اور 1971 کی جنگ میں پاک فوج کا ساتھ دیا۔ میں پاکستانی ریپیٹریشن کونسل میں شروع سے ممبر ہوں، بورڈ آف گورنرز کا۔ میں مطالبہ کرتا ہوں حکومت پاکستان سے اور وزارت داخلہ سے کہ ان کے شناختی کارڈ منسوخ نہ کیے جائیں اور نہ ان کے راستے میں رکاوٹ پیدا کی جائے۔ پاکستان کے لیے عذاب سے گزر کر آنے والے لوگ ہیں، ان کو پاکستان آنے دیا جائے۔ یہ پاکستان ایمل ولی یا فضل الرحمان کے آبا نے نہیں بنایا بلکہ ان لوگوں نے بنایا تھا۔ اور بھٹو کے آبا تو پاکستان دشمنوں کے ساتھ رہے، اور حاکم علی زرداری تو قائد اعظم کے مخالف تھے اور ان لوگوں نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ پاک فوج اس مسئلے کو دیکھے جنہوں نے آپ کا مشکل دنوں میں ساتھ دیا۔ میرا بھائی وہاں شہید ہوا تھا اور مجھے پورا پتا ہے کہ ان لوگوں نے کتنا ساتھ دیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے لوگوں نے اور بہاریوں نے کتنا ساتھ دیا۔ میجر ریاض ملک کی داستانیں سنیں، کام ایسا کریں جو آپ کی عزت میں اضافہ کرے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ جنرل باجوہ کے زمانے میں ان لوگوں کو عزت سے کراچی سے بلایا گیا تو آپ بھی ان کا خیال کریں کیونکہ جب بھی ملک میں کوئی اللہ نہ کرے برا وقت آئے گا تو یہی لوگ ساتھ دیں گے۔

اگر ان کا ساتھ آپ نے دے دیا تو عام لوگ بھی سمجھیں گے کہ بھئی کیا بات ہے۔ اگر بہاریوں کو تکلیف دی گئی تو ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے؟ ایسے کام ہی نہیں ہونے چاہئیں کہ آپ کو ضرورت پڑے گی لوگوں کی، لہٰذا ان لوگوں کا ساتھ دیا جائے۔

یہ لوگ بڑے ہنر مند ہیں، پڑھے لکھے ہیں اور ان کا کردار پاکستان کے لیے بہت اچھا ہے۔ تو فوج کو یہ کہوں گا کہ اگر پاکستان کا ساتھ دینے والوں کا آپ نے ساتھ نہ دیا تو کون دے گا؟ میں مجلس محصورین کا ساتھ دے رہا ہوں کسی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ دو قومی نظریے کے وارث ہونے کی وجہ سے۔ محمد پور کے کیمپوں میں آج بھی پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا ہے، اس جھنڈے کی لاج رکھ لیں۔

کراچی میں بے شمار برمی، بنگالی اور دوسرے لوگ بھی رہ رہے ہیں۔ کراچی کسی کے باپ کا نہیں ہے اور اگر سندھیوں کا ہے تو یہ بھی پاکستانی ہیں۔ کراچی میں سب سے زیادہ پشتون کمیونٹی رہتی ہے۔ کراچی سب کا ہے کیونکہ وہ بندرگاہ ہے۔ اس طرح کے معاملے نہ کریں، یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ پاکستان کی قومی جماعتوں میں شامل ہو کر جدوجہد کریں۔ میں نے صدر عارف علوی سے بھی درخواست کی تھی کہ محصورین کو پاکستان آنے کی اجازت دی جائے۔ اگر یہ پاکستان آتے ہیں تو مٹھاس میں اضافہ کریں گے۔ باقی، پاکستان تحریک انصاف ہر پاکستانی کے لیے آواز اٹھائے گی۔ یہ ہمارے بھائی ہیں، ان کو تکلیف نہ پہنچائی جائے۔

پنجاب تو پہلے بھی حاضر ہے، بہاری قانونی طور پر پنجاب میں آنا چاہتے ہیں تو پنجاب میں مزے کریں۔ پنجاب سب کا ہے، سندھ میں اگر کوئی تکلیف ہوتی ہے تو بہت افسوس ہوتا ہے۔ آج میں نے سندھی اخبار میں لکھنے کی بات کی تو میرے دوست نے بتایا کہ سندھی اخبار میں آپ کا کالم نہیں چھپے گا کیونکہ آپ کے نام کے ساتھ ’’چودھری‘‘ لکھا ہوا ہے۔ اب آپ یہ بتائیں کہ اس عالم میں خاص بندے نے مجھے بتایا کہ آپ کے نام کے ساتھ ’’چودھری‘‘ لکھا ہوا ہے اس لیے آپ کا کالم نہیں چھپ سکتا۔ تو میں کیا کروں؟ میں چودھری تو ہوں۔ کیا میں اپنا آپ کو ’’گجرانی‘‘ کہوں تو پھر کام چلے گا؟ یہ ہے 75 سال کے بعد پاکستانیت کا حال!

بہاری جدھر مرضی رہیں، میرے پاس کوئی تھوڑی بہت جگہ ہے، میں انہیں اپنی کے پی کے میں جگہ دے دیتا ہوں۔ پاکستان کا ساتھ دینے والے لوگ ہیں، باصلاحیت اور پڑھے لکھے ہیں۔ زبان کے حوالے سے لوگوں کو اس طرح کہا جاتا ہے کہ ’’بھئی، آپ کا سندھی اخبار میں کالم نہیں چھپے گا کیونکہ آپ چودھری ہیں‘‘۔ واہ رے واہ، سندھ!

گھوٹکی میں زمین پڑی ہوئی ہے جس پر ایک لالچی بندے نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ چھوڑیں گے تو نہیں، الحمدللہ اگر ایک درخواست دوں تو انہیں خالی کرنا پڑے گا۔ ایسے لوگ خدا کو کیا جواب دیں گے؟

میں نے پوچھا کہ تم میری زمین آگے کیسے بیچ سکتے ہو؟ یہ زمین میری ہے، میرے باپ چودھری پرویز نے محنت سے کمائی تھی۔ اب دوستوں کے ساتھ اتنی تعلقات نبھاتے ہو؟ میں وارننگ دیتا ہوں کہ زمین خالی کرو۔ ویسے تو زرداری کہتے ہیں کہ ’’پنجابی کی زمین پر قبضہ نہیں ہونے دوں گا‘‘۔ تو یہ کیا ہو رہا ہے؟ سردار علی گوہر مہر صاحب! یہ ظلم آپ کے ہوتے ہوئے ہو رہا ہے۔ آپ کے پاس میں کیس لے کر آیا ہوں، تین سال سے پڑا ہوا ہے کہ آپ فیصلہ کریں گے۔ آپ زرداری کے نمائندے ہیں اور آپ کو اپنا سردار کہا ہے تو آپ میرا بھی خیال کریں اور علی مراد مہر کا بھی۔