امریکا میں اقتدار کی منتقلی کاوقت قریب ارہاہے اور جانے والے صدرجو بائیڈن سے آخری امید کے طور پر چھیالیس امریکی ارکان کانگریس نے خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے یا لکھواکر کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان پر دباو ڈالیں کہ پی ٹی آئی کے بانی کو رہا کیا جائے اور پاکستان میںجمہوری عمل کی بحالی میں امریکی حکومت اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے تو اس مطالبے کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔یہ بھی بڑی معنی خیز بات ہے کہ امریکا کو اپنی حکومت گرانے کا الزام دینے والی پارٹی نے امریکا میں لابنگ کرکے اسی حکومت سے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کروایا ہے ،جو بجائے خود پارٹی کا بہت بڑا یو ٹرن ہے۔لیکن یہ بھی ایک سیاسی حربہ ہے جسے اختیار کرنا پارٹی کا حق ہے ،البتہ امریکا مخالف بیانیے اور ایبسلوٹلی ناٹ سے یوٹرن کے بارے میں اپنی پارٹی کے حامیوں کو مطمئن کرنا پارٹی قیادت کاکام ہے۔امریکی اراکین کی جانب سے ایوان کی قرارداد 901 کا حوالہ دیکر پاکستانی انتخابات میں دھاندلی اور بے قاعدگی کا الزام عاید کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہوا بھی ایسا ہے۔ لیکن یہ ارکان کانگریس اس بات سے تو واقف ہونگے کہ 2018 کے انتخابات میں بھی دھاندلی ہوئی تھی اور اس وقت کی مقبول پارٹی کو اقتدار سے دور رکھا گیا تھا ، انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ آرٹی ایس کس طرح اور کس نے بٹھایا تھا ، تو کیا قرارداد نمبر 901 اس وقت غیر موثر تھی، اگر یہ ارکان کانگریس خلا میں رہتے ہیں تو قابل قبول عذر ہے ورنہ وہ پاکستان میں نام نہاد جمہوریت کے حق میں اتنا پریشان نہ ہوں ،وہ دوہرے معیارات کے بادشاہ ہیں کبھی ان کو جنرل ضیا اور جنرل پرویز اچھے لگتے ہیں کبھی برے، کبھی بدعنوان سیاستدان برے لگتے ہیں اور کبھی اچھے لہذا امریکی اراکین کے خط پر تو خط لکھوانے والوں سے سوال ہونا چاہیے کہ ان کو آرٹی ایس والی حکومت جمہوری لگتی ہے اور فارم 47 والی نہیں حالانکہ دونوں ہی دھاندلی کی پیداوار ہیں۔امریکی حکام اور لیڈروں سے پاکستان کی شکایت کوئی نئی بات نہیں ہے ، بے نظیر بھٹو نے بھی پاکستانی حکومت کے خلاف خوب شکایات کے انبار لگائے تھے۔اسی طرح اب بھی کیا گیا ہے ، پیپلز پارٹی بھی اسے جمہوریت سمجھتی اور قرار دیتی تھی اور اپنا حق سمجھتی تھی اب پی ٹی آئی بھی یہی کررہی ہے ، لیکن یہ رویہ پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہے ، اسٹیبلشمنٹ کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اس کی حرکتوں سے ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔ علاوہ ازیں برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈلیمی نے تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی گرفتاری کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بانی پی ٹی ا?ئی کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے اشارے نہیں ملے۔ وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے 16 اکتوبر کے رکن پارلیمنٹ کم جانسن کے خط کے جواب میں پاکستان میں انسانی حقوق اور سیاسی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور لکھا ہے کہ پاکستان کے عدالتی معاملات اندرونی معاملہ ہیں۔اور آئینی ترامیم کی منظوری پارلیمنٹ کا معاملہ ہے۔کم جانسن سے یہ خط پی ٹی آئی کے زلفی بخاری نے لکھوایا تھا۔ اب پاکستان کی جانب سے تردید اور خودمختاری میں مداخلت وغیرہ قرار دیا جارہا ہے لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنے عوام پر تو سخت ہے اور اگر کسی امریکی وزیر نے یا برطانوی وزیر خارجہ نے فون بھی کردیا تو یہ اپنی ساری خود مختاری بھول جائیں گے ،پاکستانی سیاست میں عوام کے نام پر عوام ہی کو محروم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔پہلے سیاستدان اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لیے ایوان صدر اور وزیر اعظم سے رابطے کرتے تھے پھر فوج سے کرنے لگے۔ اور جی ایچ کیو کا گیٹ نمبر چار تو بہت ہی معروف اصطلاح ہے سب اسی کے اسیر ہیں۔لیکن اب خرابی یہ ہوگئی ہے کہ سیاسی لیڈروں نے دیکھا کہ گیٹ نمبر چار والے جس سے ڈرتے ہیں اسی سے رابطہ کیا جائے ، تو اگر کوئی امریکا و برطانیہ سے رابطہ کررہا ہے تو یہ راستہ بھی اسٹیبلشمنٹ نے دکھایا ہے۔وہ ایک کونسلر ، یوسی اور شہروں کے مئیر تک کے انتخابات میں ایسے مداخلت کرتے ہیں جیسے کشمیر ،برما، فلسطین ، بھارت اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے کرنی چاہیے اور اس پر آواز اٹھانے کو غداری ، ملک دشمنی اور نہ جانے کیا کیا کہہ دیا جاتا ہے۔جس گھٹیا سطح پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اتر آئی ہے اس کے بعد کوئی امریکا سے مدد طلب کرے ،برطانیہ سے یا اقوام متحدہ سے، اس پر کسی کو غدار وغیرہ قرار دینے یا شکوے کی ضرورت نہیں۔یہ ساری اسٹیبلشمنٹ کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ، وہ جعلی نمائندے لاکر بٹھاتے ہیں ا ہیں اتارتے ہیں، پھر دوسرے کو لاتے اور پھر انہیں واپس لاتے ہیں، کوئی گلے پڑ جاتا ہے تو وہ بھی اسی کے ہاتھ کا تراشا ہوا ہے۔اب پاکستان کے وقار ، سا لمیت ،خودمختاری اندرونی معاملات مداخلت کے پردوں کے پیچھے چھپنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں تک کہ عدالتی نظام کو بھی تباہ کردیا گیا ہے ، لوگ جائیں تو کہاں جائیں۔