کراچی جیسے شہر میں جہاں سڑکیں تباہ حال، فٹپاتھ غائب،اسٹریٹ لائٹس موجود لیکن بند ، یہاں ٹریفک کا دباو بھی شدید ہے اس پر گاڑیوں کی پارکنگ کے ٹھیکے بانٹے جارہے ہیں، ایسے میں شکایات ملنے پر کچھ نمائشی اقدامات کیے جاتے ہیں ، ایسے ہی کچھ اعلانات ایک بار پھر کیے گئے ہیں کہ شہر کی مصروف شاہراہوں پر ڈبل پارکنگ پر پابندی عائد کرتے ہوئے ہدایت کی کہ مصروف شاہراہوں پر قائم چارجڈ پارکنگ کے قواعد پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے گا۔ کمشنر کراچی حسن نقوی کی زیر صدارت اجلاس میں ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز ، ڈپٹی کمشنرز اور بلدیاتی اداروں اور پی ٹی اے سیکریٹری کی موجودگی میں ٹریفک دباو دور کرنے کے لئے موثر اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ، اور ہدایت کی گئی کہ ضلعی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس مل کراقدامات کریں۔اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ مصروف شاہراہوں پر قائم چارجڈ پارکنگ قواعد کی خلاف ورزی کرنے والے کنٹریکٹرز کے اجازت نامے منسوخ کر دیے جائیں گے۔ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے کمشنر کو کراچی کے شہریوں کا بہت درد ہے، ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن ٹریفک کی روانی پورے شہر میں مسئلہ ہے کیا روانی میں صرف ڈبل پارکنگ حائل ہے، شہر کے بہت سے علاقوں کو بیرئیر لگا کر عوام کے لیے بند کردیا گیا ہے بہت سی سڑکیں تنگ ہونے کے باوجود ڈبل ٹرپل پارکنگ ہوتی رہتی ہے اور پولیس اہلکار ہاتھ ہلا ہلا کر گاڑیوں کو نکلنے کی ہدایت کرتے ہیں اور ان کی نگرانی میں ڈبل پارکنگ جاری رہتی ہے، ایسے مقامات میں بحریہ یونیورسٹی کے سامنے تنگ سڑک جو شاہراہ بھی نہیں ہے ڈبل اور ٹرپل پارکنگ کرکے لوگوں کا راستہ بند کیا جاتا ہے حالانکہ اندر وسیع جگہ ہے گاڑیاں اندر جاکر بچوں کو لے سکتی ہیں، اسی طرح سوئی سدرن کے آفس کے سامنے ، اواری ہوٹل کے سامنے بھی رکاوٹیں ہیں اورپرل کانٹی نینٹل کے قریب رینجرز ہیڈ کواٹر کے سامنے اور کئی مقامات پر بیرئیر لگا کر سڑک پتلی کردی گئی ہے۔ چندریگر رود تو تماشابنی ہوئی ہے۔ صدر اورطارق روڈ پر بھی یہی صورتحال ہے فٹپاتھ پر پتھارے،سڑک پر ڈبل پارکنگ جبکہ جمشید روڈ ،خالد بن ولید روڈ پر کار شوروم والوں نے سڑک تنگ کر رکھی ہے ، لیاقت آباد اور پورے شہر کے چوک چوراہوں خصوصا جوہر چورنگی پر پولیس ،تھانوں کنٹونمنٹ اور ضلعی انتظامیہ کی سرپرستی میں پتھاروں کا راج ہے ،چائے کے ہوٹلوں کی کرسیاں میزیں۔ ٹھیلے وغیرہ ہیں ، کیا کمشنر صاحب کو معلوم نہیں، ؎جبکہ شہر میں یہ بات زبان زدعام ہے کہ بھتا اوپر تک جاتا ہے۔ پھر نمائشی اقدامات کیا کاغذ کا پیٹ بھرنے کے لیے ہیں۔