ا سموگ سلفرکی آگ عوام مرے ،حکمران فرار؟

120

پنجاب کے تما م ہی حکمران اسموک سے بچنے کیلیے ابھی ملک سے فرار ہیں یا چلے گئے ہیں۔ ا سموگ گزرتے برسوں کی طرح اس سال بھی پاکستان میں زیادہ وقت گزارنا چاہتا ہے جس سے مختلف طبی مسائل کا باعث بنتا ہے۔ جامع ماحولیاتی نظام کو کنٹرول کیا جائے تو اس صورت میںختم تو نہیں ہوگی لیکن اس کو کسی نہ کسی حد تک کم ضرور کیا جاسکے گا۔پاکستان میں حکمرانوں کی ملک میں دلچسپی نہ ہو نے وجہ سے یہ مسئلہ ہر سال بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔تین دن سے کراچی میں ماحولیاتی انڈیکس 11نمبر ہے
پاکستان اپنی ماحولیاتی خدمات کے بدلے دنیا سے اپنے قرضوں کے خاتمے کا طلب گار ہے۔دنیا اس وقت بدلتے موسم، قدرتی آفات اور کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے گزر رہی ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو بلا تخصیص رنگ و نسل اورملک و قوم کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ ماحولیاتی مسائل سرحدوں سے ماورا ہوتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے اس کے لیے پوری دنیا اپنا کر دار ادا کر ے۔آلودہ فضا کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کسی پاکستانی کی سانسیں روک رہی ہے یا کسی انڈین کی۔ خراب پیٹرول سے نکلتا زہریلا دھواں، بڑھتی حدت سے پگھلتے گلیشئرز، سیلاب،خشک سالی، آلودہ دریا اور جنگلات کی کٹائی امیر ممالک کے لیے بھی اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا کہ کسی غریب ملک کے لیے۔
عوام کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران نہ صرف ان خطرات کا ادراک رکھتے ہیں بلکہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ غربت ان مسائل کا ایک بڑا سبب ہے۔ لہٰذا امیر ممالک اس حوالے سے غریب ممالک کو امداد دے کر بظاہر ان کی زندگی تو آسان بناتے ہی ہیں لیکن در پردہ دراصل وہ خود کو بھی محفوظ کر رہے ہوتے ہیں اور پاکستان کا کیس بھی یہی ہے۔

اسموگ کے خطرات، نقصانات اور بچاؤ کا طریقہ۔اسموگ ٹھہری ہوئی ہوا کی ایک گھنی تہہ ہے جو زمین کی سطح کے قریب اس وقت بنتی ہے جب فضائی آلودگی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ زیادہ ٹریفک والے تعمیر شدہ شہروں میں یا زیادہ اخراج والی صنعت کے قریب والے علاقوں میں زیادہ عام ہے۔ یہ نقصان دہ مادہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب سورج کی روشنی گیسوں، جیسے صنعتی اخراج یا کار کے اخراج کے دھوئیں کے ساتھ نچلی فضا میں رد عمل ظاہر کرتی ہے۔لاہور سمیت پنجاب بھر میں اسموگ کی وجہ سے بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں، 19 لاکھ افراد اب تک مختلف امراض میں مبتلا ہو کر اسپتال پہنچ چکے ہیں۔

محکمہ صحت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق نومبر کے صرف 14دنوں میں 7 لاکھ سے زائد افراد پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا ہوئے 19 لاکھ افراد اب تک مختلف امراض میں مبتلا ہو کر اسپتال پہنچ چکے ہیں۔محکمہ صحت پنجاب کی رپورٹ کے مطابق اسموگ کی خوفناک صورتحال میں شہری سانس، دمہ، دل کے امراض اور فالج میں مبتلا ہو رہے ہیں، صرف اکتوبر کے مہینے میں 19 لاکھ 34 ہزار 30 افراد پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا ہوئے۔عالمی ماحولیاتی ویب سائٹ کے مطابق 800 ایئر کوالٹی انڈیکس کے ساتھ لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر رہا جبکہ نئی دہلی 624 اے کیو آئی کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔

پاکستانی شہروں کی بات کی جائے تو لاہور 800 کے ساتھ پہلے، ملتان 755 کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔ گلبرگ لاہور کے علاقے میں سب سے زیادہ ایئر کوالٹی انڈیکس 1414ریکارڈ کیا گیا۔سیکریٹری ماحولیات پنجاب کا کہنا ہے کہ صورتحال خراب رہی تو لاک ڈاؤن کی طرف جا سکتے ہیں۔دوسری طرف اسموگ ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف کریک ڈاؤن جاری رہا۔ پچھلے 24 گھنٹوں میں رات 8 بجے مارکیٹیں بند نہ کرنے پر 56 دکانیں، آؤٹ ڈور ڈائننگ پر 10 ریسٹورنٹس جبکہ 3 اوپن بار بی کیو پوائنٹس سیل کر دیے گئے۔
اسموگ میں سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے، خاص طور پر گہرے سانس لینا مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر آپ دمے کے مریض ہیں تو اسموگ میں جانا آپ کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ اسموگ سے سب سے زیادہ آنکھیں متاثر ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ان میں جلن اور خارش کا احساس ہوتا ہے

ا سموگ بنیادی طور پر زیادہ سلفر والے کوئلے کی بڑی مقدار کو جلانے کی پیداوار ہے۔ جبکہ فوٹو کیمیکل ا سموگ ایک زیادہ جدید مظاہر ہے جو عام طور پر سورج کی روشنی کے ساتھ رابطے میں گاڑیوں کے اخراج سے پیدا ہوتا ہے۔زیادہ تر پٹرول اور ڈیزل جلانے سے۔ فوٹو کیمیکل سموگ گرم، گنجان آباد شہروں میں بہت سی گاڑیوں کے ساتھ بنتی ہے۔ لیکن، اگرچہ سموگ کا تعلق گرمیوں سے ہے، لیکن موسم سرما میں بھی سموگ ہو سکتی ہے۔ سرد دھند والے دن ایک خاص مسئلہ ہیں کیونکہ نقصان دہ گیسیں زمین کے قریب پھنس سکتی ہیں۔

اسموگ بنیادی طور پر اوزون پر مشتمل ہوتی ہے لیکن اس میں دیگر نقصان دہ مادے بھی ہوتے ہیں، جیسے سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور چھوٹے مالیکیول جو ہمارے پھیپھڑوں میں گہرائی تک پہنچ سکتے ہیں۔ اوزون، جو کہ فضا میں زیادہ ہونے پر ہماری جلد کو نقصان دہ یو وی شعاعوں سے بچاتا ہے، زمین کے قریب ہونے پر نقصان دہ اور پریشان کن صحت کے اثرات کا سبب بن سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ سموگ آپ کی صحت کو کیسے متاثر کرتی ہے؟اس سلسلے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کھانسی، الرجی اور آنکھوں، سینے، ناک اور گلے کی جلن،اس سے دمہ کا بڑھ جاتا ہے۔اسموک سے سانس لینے میں دشواری اور پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہے ،سانس اور کینسر کی بیماریوں کی وجہ سے قبل از وقت اموات کا خدشہ ہو تا ہے

پیدائشی نقائص اور پیدائش کا کم وزن، رکٹس (سوکھے کی بیماری) پیدا ہونے کا خطرہ، سڑک حادثات یا یہاں تک کہ ہوائی جہاز کے حادثے کے خطرات،کچھ لوگ سموگ اور فضائی آلودگی کے اثرات سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں، بشمول وہ لوگ جو سینے، پھیپھڑوں یا دل کی موجودہ شکایات رکھتے ہیں۔ اسموگ کی صحت کو متاثر کردہ پہلی علامات گلے، ناک، آنکھوں یا پھیپھڑوں میں جلن ہوسکتی ہیں اور سانس لینا متاثر ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں فضائی ا?لودگی کا بحران میں بھارت سے ا?نے والی ا?لودگی غیر معمولی اضافے کا باعث بنتی ہے۔ خاص طور پر سردیوں کے مہینوں میں اس میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بھارت میں کروڑوں گاڑیوں سے دھویں کے اخراج، صنعتی ا?لودگی اور موسمی زرعی باقیات کو جلانے سے پیدا ہونے والی اسموگ پاکستان پہنچتی ہے اور مقامی فضائی ا?لودگی کو خطرناک حد تک بڑھا دیتی ہے۔ یہ مشترکہ جغرافیائی اور سماجی و اقتصادی عوامل کی عکاسی ہے جو جنوبی ایشیائی خطے میں فضائی ا?لودگی کو بڑھاتے ہیں۔ حکومت پاکستان بارہا اس بات کا کھلے لفظوں میں اظہار کر چکی ہے کہ پاکستانی علاقوں میں بیشترحالیہ اسموگ بھارت سے ا?تی ہے۔

پاکستان کی فضائی آلودگی کے بارے میں ایک حیران کن حقیقت عوامی صحت پر اس کے اثرات ہیں۔ اسٹیٹ آف گلوبل ایئر کی ایک تحقیق کے مطابق فضائی ا?لودگی پاکستان میں اموات کی سب سے بڑی وجہ بن رہی ہے۔اس کی وجہ سے سالانہ کئی ہزار قبل از وقت اموات ہونے لگی ہیں۔ یہ اعدادوشمار صرف ایک عدد نہیں بلکہ ماحولیاتی نظر اندازی کی انسانی قیمت کا سنگین اشارہ ہے۔لیکن عوام کہا ں جائیں۔
مزید یہ کہ معاشی مضمرات بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ عالمی بینک کا تخمینہ ہے کہ فضائی ا?لودگی سمیت ماحولیاتی تنزلی پاکستان کو اس کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 6 فیصد سالانہ خرچ کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ معاشی بوجھ فوری کارروائی اور پالیسی مداخلت کے لیے ایک جگا دینے والی کال ہے۔ پاکستان میں فضائی ا?لودگی کا بحران پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ اور یاد رکھیں ، یہ صرف ایک مقامی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی چیلنج ہے جو اجتماعی کارروائی اور مشترکہ ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔

تاہم پاکستان میں فضائی آلودگی ایسا بحران بن چکا جو لاکھوں لوگوں اور ماحولیات کو گہرائی میں متاثر کررہا ہے۔ اس کے شہر اکثر ا سموگ کی لپیٹ میں رہتے ہیں۔ قوم کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے جس پر فوری توجہ اور کارروائی کی ضرورت ہے۔ ا?ج عوام کے لیے درپیش فضائی ا?لودگی کے مسئلے کی سنگینی سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ مسئلہ اتنا زیادہ سنگین ہے کہ اس نے غلط وجوہ کی بنا پر پاکستانی شہروں کو عالمی نقشے پر نمایاں کر دیا۔ اب وہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔