پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے کے درمیان حالیہ مذاکرات میں حکومت نے یکم جنوری 2025 سے زرعی ٹیکس کے نفاذ کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اس سے قبل پاکستان میں کئی دہائیوں سے مختلف حکومتیں زرعی انکم ٹیکس مؤثر طور پر نافذ کرنے اور وصول کرنے کے دعوے کرتی رہی ہیں، لیکن طاقتور حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے، جن کا پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بڑا اثر رسوخ ہے، کسی بھی حکومت نے اس ضمن میں کبھی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ بعد ازاں اس مسئلے کو ٹالنے کے لیے زرعی انکم ٹیکس کو صوبائی معاملہ قرار دے کر وفاقی حکومت نے اپنی جان چھڑا لی۔ تاہم، صوبوں کو منتقل کرنے کے بعد بھی زرعی انکم ٹیکس کی وصولی نہ ہونے کے برابر رہی۔ اس کے برعکس، وفاقی حکومت نے بالواسطہ ٹیکسوں، جی ایس ٹی میں اضافہ، پٹرولیم لیوی بڑھانے اور بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے کے ذریعے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران، آئی ایم ایف نے بھی معاونت کی کہ زرعی انکم ٹیکس نافذ نہ کیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والی رقم کو مکمل خرچ کرنے کے بجائے روک لی جائے اور فاضل بجٹ دکھایا جائے تاکہ مالی معاملات وفاقی کنٹرول میں رہیں۔ صوبے بھی خوش، وفاق اور آئی ایم ایف بھی خوش اور پاکستان کی معیشت کی تباہی کا یہ راستہ تھا کہ ہم نے یہ شرط منظور کرلی اور اس کی مدد کے لیے دوہزار دس کے این ایف سی ایوارڈ کے بعد، بھی اس بات کی طرف توجہ نہ دی گئی۔ بجٹ میں فاضل بجٹ دکھایا گیا، لیکن اس وقت بھی یہ واضح تھا کہ این ایف سی ایوارڈ ناقابل عمل ہے۔ اس کے باوجود کسی نے اس مسئلے پر توجہ نہیں دی، اور آئی ایم ایف کی تجاویز کو ترجیح دی گئی۔ آج معیشت کی تباہی کے آثار واضح ہیں، اور پاکستان دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اگر آئی ایم ایف کی جانب سے 7 ارب ڈالر کے قرضے کی قسط نہ ملی، تو پاکستان بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے قابل نہیں ہوگا۔ ان حالات کے پیش نظر، اب کوئی چارہ نہیں رہا کہ آئی ایم ایف کے مطالبے کو مان لیا جائے۔ اسی لیے صوبوں نے زرعی انکم ٹیکس لگانے اور اس حوالے سے قانون سازی کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ خود آئی ایم ایف نے بھی اس بار پہلی مرتبہ براہ راست صوبوں سے مذاکرات کیے ہیں، لیکن کسی خوش فہمی کی ضرورت نہیں۔ پچھلے تیس، پینتیس برسوں سے آئی ایم ایف بار بار یہ کہتا رہا ہے کہ معیشت کو دستاویزی بنائیں، ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب بڑھائیں، اور تمام اقسام کی آمدنی پر ٹیکس عائد کریں۔ لیکن سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے واضح طور پر کہا ہے کہ طاقتور طبقے سے ٹیکس وصول کریں اور غریبوں کو مراعات دیں۔ لیکن حالیہ قرضے آئی ایم ایف نے دے دیے اور کے باوجود وہی صورتحال برقرار ہے۔ بالواسطہ ٹیکس بڑھا دیے گئے، عوام پر بوجھ ڈالا گیا، لیکن اشرافیہ اس ملک میں آج بھی مزے میں ہے۔ کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ نہیں کی جا رہیں۔ ہمارا فصلوں کا جو کام ہے، لائیو اسٹاک کا جو کام ہے، زیادہ تر نقد پر ہے۔ پٹواری کا اس میں بہت کردار ہے، وہاں کرپشن بہت ہے، پٹواری اور دیگر افراد کی کرپشن ختم کرنا ہوگی۔ آئی ایم ایف تو درحقیقت یہی چاہے گا آگے چل کے چند برسوں میں معیشت لڑکھڑاتی رہے، کمزور رہے تاکہ 2027 کے بعد ہمیں ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے۔ یہ وہ وقت ہوگا جب دنیا میں بڑی تبدیلی آ چکی ہوگی اور پاکستان کا گرد گھیرا تنگ ہوگا۔ مگر یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ اس وقت نہ صرف زرعی انکم ٹیکس بلکہ ایک مقرر آمدنی سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگائیں اور وصول کریں۔ قانون سازی کافی نہیں ہے اور حکومت کے علم میں ہے، ایف بی آر کے علم میں ہے، صوبوں کے علم میں ہے کہ موثر طور پر ایگریکلچر ٹیکس وصول کرنے کے لیے کن اصلاحات کی ضرورت ہے، جو کی نہیں کی جا رہی۔ اس لیے کہ معاملہ پاکستان کی سلامتی کا ہے، پاکستان کی خود مختاری کا ہے، اس لیے آپ اس میں سیاسی کھیل بند کریں اور اس پر عمل درآمد کے لیے سنجیدہ کوشش کریں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ زرعی ٹیکس کے نفاذ کے ساتھ کسانوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ جدید ٹیکنالوجی، معیاری بیج اور کھاد کی بروقت فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ کسان کی پیداواری لاگت کم ہو اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔