کراچی میں کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز کا تصور ابتدا میں غریب اور متوسط طبقے کو چھت فراہم کرنے کے لیے متعارف کروایا گیا تھا، لیکن بدقسمتی سے یہ منصوبہ بھی بدانتظامی، کرپشن، اور لینڈ مافیا کے قبضے کا شکار ہو گیا۔ آج بیش تر سوسائٹیوں کے مکین ترقیاتی کاموں کے فقدان اور بدانتظامی سے پریشان ہیں، لیکن وہ اپنی مینجمنٹ سے حساب لینے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے حالیہ سماعت کے دوران نہایت سخت ریمارکس دیے ہیں، جنہوں نے کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ عدالت نے کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے غیر متعلقہ اور نااہل افراد کو ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ عدالت کے سامنے یہ انکشاف ہوا کہ ایک سوسائٹی کے ایڈمنسٹریٹر، شاہنواز لاشاری، نہ صرف تعلیمی اعتبار سے غیر اہل تھے بلکہ اپنے تعیناتی کے نوٹیفکیشن کو پڑھنے میں بھی ناکام رہے۔ اس پر عدالت نے حیرت اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے افراد کی تعیناتی عوام کی جمع پونجی کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ عدالت عالیہ نے ایک اور اہم حکم دیا ہے کہ آئندہ کسی غیر متعلقہ شخص کو کوآپریٹو سوسائٹی کا ایڈمنسٹریٹر نہ بنایا جائے اور تمام تعیناتیوں کے طریقہ کار، سرکاری ٹرانزیکشنز، اور سوسائٹیز کی تفصیلات 15 روز کے اندر پیش کی جائیں۔ دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس ظفر احمد خان راجپوت نے کہا کہ کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ نے 2020 سے ٹیلی فون کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی پر قبضہ کر رکھا ہے، جہاں مختلف اوقات میں چار ایڈمنسٹریٹرز تعینات کیے جا چکے ہیں، لیکن عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ بیش تر ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں وقتاً فوقتاً انتخابات مؤخر کر دیے جاتے ہیں اور منظور نظر افراد کو انتظامی امور سونپ دیے جاتے ہیں، جس سے سوسائٹیوں میں مزید ابتری پیدا ہو رہی ہے۔ اسی طرح کی صورت حال سے کوئٹہ ٹائون سوسائٹی کے لوگ بھی گزر رہے ہیں جو آئے دن احتجاج بھی کررہے ہوتے ہیں اور ان کے بھی مقدمات عدالتوں میں موجود ہیں۔ عدالت نے ان رویوں کو غیر سنجیدہ اور عوام کے حقوق کے خلاف قرار دیا ہے۔ عدالت کے حالیہ احکامات امید کی کرن ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد کے لیے حکومت سے امید تو کم ہے لیکن عدالت کو ہی کروانا ہوگا اور عوام کو بھی ہر ہر سوسائٹی میں مزاحمت جاری رکھنا ہوگی۔