روداد کراچی ایڈیشن :سیشن1

53

ایجوکیشنل سمٹ 2024 کے کراچی ایڈیشن میں شرکت کے لئے ہم وقتِ مقررہ پر پی سی ہوٹل پہنچ گئے۔ مہمانانِ گرامی بھی تشریف لا چکے تھے اور بغیر کسی تاخیر کے پروگرام کا آغاز ہوا۔ ناظمہ اعلیٰ پاکستان، معتمدہ عام، مرکزی شوریٰ اور صوبائ شوریٰ سمیت ہم چند طالبات اس پروگرام کے شرکاء تھے۔
تلاوت و ترجمہ کے بعد میزبان نے تمام مہمانان کا تعارف پیش کیا۔
مہمانان میں سر معروف بن روف (اسٹنٹ پروفیسر شعبہ ایجوکیشن جامعہ کراچی)، سر شہزاد قمر (ڈائریکٹر اتالیق فائونڈیشن)، محترم ضیاء الحسن قادری صاحب (ڈائرکٹر آفاق)
محترمہ صائمہ سفیر (ایم فل اسکالر جامعہ کراچی)، محترمہ افشین عارف (ایم فل اسکالر)، محترمہ شمائم کبیر خان (ہیومینیٹیرین)، محترمہ گلزار فاطمہ (لیکچرر ابواب)،
محترمہ سمیہ ہاشم (اپریشن ڈائرکٹر ERI)، محترمہ اسماء رضوان صاحبہ (ریسرچ اسکالر)،
محترمہ نزہت منعم صحابہ (سٹی کونسلر اور سینئر مینیجر UPSS) و دیگر موجود تھے۔
پینل ڈسکشن کے اصول و ضوابط بتانے کے بعد ارشاد ہادی صاحب نے
📒 مہنگی تعلیم کے حوالے سے گفتگو سے ڈسکشن کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ پرائیوٹ تعلیمی ادارے تجارت کے مراکز بن چکے ہیں جبکہ تعلیم کے لئے عالیشان عمارت، ائیر کنڈیشنرز وغیرہ کی نہیں بلکہ ایک مناسب استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کا نظام تعلیم میں ٹیچر ہیں، مربی نہیں جو طالب علموں کو ایک اچھا مسلمان اور اچھا انسان بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
📒 پاکستان کے وفاقی بجٹ میں تعلیمی بجٹ میں کم حصہ رکھنے پر محترمہ نزہت منعم صاحبہ نے کہا کہ پاکستان کے پالیسی میکرز اس فرسودہ نظام سے نہیں گزرے جس کی وجہ وہ عام طالب علم کے مسائل کو کبھی سمجھ ہی نہیں سکتے۔ اس لئے ان کو تعمیلی بجٹ کے کم ہونے سے کوئ مسئلہ نہیں ہوتا نیز جامعات یا انسٹی ٹیوشن کو اپنا بجٹ بنانے سے پہلے اسٹوڈنٹس سے سروے کر کے ان کی رائے لینی چاہئیے کہ ان کی کیا ضرورتیں ہیں۔ مزید برآں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے لوگوں کو پالیسی میکنگ پر لایا جائے جو پاکستان کے اسی تعلیمی نظام سے گزرے ہوں اور طلبا و طالبات کے مسائل کو جانتے ہوں۔
📒 لادینی تعلیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے محترمہ اسماء رضوان صاحبہ نے کہا کہ نظریہ کا جواب نظریہ اور نعرہ کا جواب نعرہ ہی دے سکتا ہے۔ طلبہ و طالبات کو ماسٹرز، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم کے بعد لازمی Islamic integration سے گزارا جائے۔
سر معروف بن روف نے
📒 طلبہ یونین پر پابندی کے حوالے سے چشم کشاء حقائق پیش کئے اور کہا کہ پابندی کی وجہ سے۔ ملکی سیاست میں سیاسی قیادت کی تربیت و تیاری کا فقدان نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعات کے اندر جو سوسائٹیز قائم ہوتی ہیں (ڈیبیٹنگ، میوزک، تھیٹر وغیرہ) ان کا کوئ عمل دخل فیصلے اور اختیار میں نہیں ہوتا۔ وہ بس ایونٹس آرگنائز کرتی ہیں، جبکہ طلبہ یونین ایک بہت بڑا قانونی ادارہ ہے جو جامعات سے نکل کر سینیٹ تک میں طالب علموں کی نمائندگی کرتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مغرب کی وہ جامعات جہاں فلسطین کے حق میں مظاہرے ہورہے ہیں، وہاں کوئی جمعیت یا چھاترو شبر موجود نہیں بلکہ وہ اسٹوڈنٹ یونین کی قوت ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ آج کلاسز نہیں ہوں گی بلکہ فلسطین کے حق میں مظاہرہ ہوگا۔
محترمہ سمیہ ہاشم صاحبہ نے
📒 مخلوط نظامِ تعلیم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کی یوتھ مخلوط نظامِ تعلیم کو پسند کرتی ہے اور اسکے حق میں دلائل بھی دیتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں استاد بہر حال ایمپاورڈ ہے۔ استاد خود اپنے حلقہ اثر میں یہ اختیار رکھتا ہے کہ جہاں کہیں اختلاط مرد و زن ہو رہا ہو اس کو کسی حد رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ گروپ پروجیکٹس کے لئے طلبہ و طالبات کے علیحدہ گروپس بنوائے۔
اس کے علاؤہ انہوں نے مولانا مودودی کا ایک خوبصورت قول کوٹ کیا کہ
’’مسلمانوں کا پرانا جہاز، دورِ جدید کے کسی ہولناک طوفان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ شاید ایک ہی تھپیڑے میں اس کے تختے بکھر جائیں۔ اب یہی وقت ہے کہ مسلمان پرانے جہاز سے بھی نکلیں اور کرائے کے جہاز سے بھی اتریں اور خود اپنا ایک جہاز بنائیں، جس کے آلات اور کُل پرزے جدید ترین ہوں، مشین موجودہ دور کے تیز سے تیز جہاز کے برابر ہو، مگر نقشہ اسلامی جہاز کا ہو اور اس کے انجینیر اور کپتان اور دید بان سب وہ ہوں جو منزل کعبہ کی راہ و رسم سے باخبر ہوں‘‘۔
(خطاب:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، اپریل ۱۹۳۶ء)
📒 ایم کیٹ کی بے قاعدگیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے محترمہ افشین عارف صاحبہ نے کہا کہ پیپر کبھی غلطی سے لیک نہیں ہوتا۔ اس کے پیچھے غیر شفاف نظامِ تعلیم ہے جو اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے جن پر ہاتھ ڈالنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
OOO