ملک بدامنی کی لپیٹ میں ہے کوئی کل سیدھی نہیں، ہر اک سیاست سیاست کھیل رہا ہے، ان پُرآشوب ایام میں پنجاب حکومت کی طرف سے ایک کروڑ روپے کی سرکاری بولی یافتہ بدنام زمانہ اور انتہائی مطلوب ڈاکو جو دہشت کی علامت تھا لوند گینگ کا سرغنہ شاہد لوند کو ہلاک کرنے کا دعویٰ پولیس نے کیا اور لاش برآمد کرکے ثبوت بھی دے دیا کہ خس کم جہاں پاک۔
یہ بات تو درست ہے کہ ڈاکو شاہد لوند مارا گیا جس کو مارنے کے لیے پولیس دو ماہ سے پلان بنا رہی تھی مگر یہ بات میڈیا پر اُٹھ رہی ہے کہ اس کو پولیس نے نہیں مارا بلکہ اس کے قریبی عزیز عمر لوند کے ہاتھوں قتل کروایا اور اس قتل میں اسرائیل والا فارمولا اپنایا گیا کہ آستین کا سانپ ڈھونڈا گیا۔ ایک کروڑ روپے کی خطیر رقم کی لالچ دی گئی اور قصہ تمام کرا ڈالا۔ مگر ڈاکوئوں کی بھیڑ میں یہ کیوں قتل کیا یا کروایا گیا اس کی ویڈیو ایک میڈیا پر گردش کررہی ہے جو اس کی زبانی ہے جس میں موجودہ صدر، وزیراعظم اور دیگر وزرا کو بہت برا کہہ رہا ہے اور عمران خان کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال رہا ہے۔ یوں کہییکہ اس نے مرنے کا سامان خود کیا۔ کیا یہ بھی سیاسی قتل ہے؟ وقت اس کا فیصلہ کرے گا مگر یہ وقت کب آئے گا؟ بڑے بڑے لوگوں، حکمرانوں، بانیوں کے قتل کے فیصلے التوا میں پڑے روز محشر کے منتظر ہیں، ہم اس ڈاکو کے ہرگز ہمدرد نہیں جس کے دامن کا ہر کونا بڑے جرم سے داغدار ہے، مگر مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی باک نہیں کہ ڈاکو فیکٹر سیاسی سندھ میں ضرور ہے اور میں خود چشم دید بلکہ متاثرہ ہوں کہ بھٹ شاہ کے قریب ضیا الحق کی حکومت میں رات کے سفر کے دورانیہ میں ہماری بس کو مسلح ڈاکوئوں کے ایک ٹولے نے روک کر مسافروں کو جی بھر کر بے خوف ہو کر لوٹا اور پھر ایک ڈاکو نے برملا کہا جو میرے کانوں نے سنا کہ ہم چور ڈاکو نہیں ضیا الحق… گالی… کی وجہ سے میدان میں اُترے ہیں۔ اور شرافت یوں دکھائی کہ مجھ سے پوچھا کہ آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ نکال کر ہمیں دے دیں میں نے گھڑی اور بالکل معمولی رقم دی تو انہوں نے لینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ رکھ لو اور سر گھٹنوں میں دے کر بیٹھ جائو۔
جی ہاں اُن ہی ایام میں ایک ملک کی بڑی سیاست دان نے ڈاکو کو فخر کی علامت قرار دیا تھا اور تو اور خود ضیا الحق کے مقرر کردہ وزیراعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ پر سکھر جیل تڑوانے اور ڈاکوئوں کے بھگانے کا الزام اور ڈاکوئوں کا ایک خط سندھی زبان کے رسالے وبیھنار میں شائع ہوا جس میں ڈاکوئوں نے بتایا کہ فلاں فلاں سروے نمبر زمین فروخت کرکے یہ بھاری رقم ادا کی گئی، واللہ علم، ہاں جب چودھری شجاعت حسین کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں سندھ کی بدامنی پر غور ہورہا تھا تو خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے ان کی پشت پناہ کی جو لسٹ بتائی سرفہرست سید غوث علی شاہ کا نام تھا۔ یہ غوث علی شاہ، ایم کیو ایم کے سندھ میں بانیوں سے ایک ہیں ’’مہاجر قومی موومنٹ‘‘، بھی ڈاکوئوں کا اردو ایڈیشن ہی تھی جس نے شہروں میں تباہی مچائی اور امن کی فاختہ اُڑائی، اندرون سندھ اور شہر ان سیاسی تنظیموں نے محصور کر ڈالے تھے۔
کیا سندھ کی سیاست کا اہم عنصر اک ڈاکو بھی ہیں؟ جی ہاں! کچھ ایسا ہے۔ بدامنی پھیلا کر پھر خود کو تریاق بتا کر مقتدروں کو ڈراوا دے کر حکومت بٹورنا بھی سیاسی فن ہے اور انسانی اغوا کی وارداتوں نے پھر جنم لیا۔ بہیمانہ تشدد، ڈرل کرنا، تیزاب سرنج سے پیٹ میں ڈالنا، سیاسی حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے ہوتے رہے وہ پتھرائی آنکھوں ان کو اپنے اقتدار کی بھینٹ سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے، تف ہے ایسے حکمرانوں پر، جمہوریت ووٹوں کی گنتی کا نام ہے اور ووٹ حکمرانی کا انعام ہیں اور ڈاکو کو بھی ووٹرز ہیں۔ بھلا کون ووٹرز ڈاکوئوں کو ناراض کرے حالانکہ انتخاب میں سیاست دان ڈاکوئوں کی بستی میں گھومتے رہے ڈاکو اُن کے ترانے گاتے رہے اور پھاکر پاتے اجرک پہناتے میڈیا پر آئے ان بستیوں میں جو نوگوایریا ڈاکوئوں کے ہیں پولیس جاتے کپکپاتی ہے اور جانے سے پہلے امان پاتی ہے اور خرچہ پانی پہنچاتی ہے ان بستیوں کی راہیں من پسند سیاست دانوں کے لیے کشادہ ہیں جب مرضی سے آئیں اس میں دونوں کا بھلا ہے۔ ’’انسانی اغوا‘‘ جو انسانیت کی ناکامی کا نام ہے اب مسنگ پرسن کے نام سے بھی زیر استعمال ہے اور قانون جو سیاسی گھن چکر کا شکار ہے اُس کو اپنی پڑی ہے کہ میرا ہی حلیہ بگڑا جارہا ہے، میں کیا کروں مجھے اپنی ہی فکر کھائے جارہی ہے۔ سندھ کی ہی نہیں بلوچستان اور کے پی کے کی بدامنی سیاسی اور بلیک میلنگ کے ذریعے اقتدار کے دوام اور حصول کا مال کا ہتھکنڈا ہیں۔ کیا چند ہزار بدامنی کے ذمے دار جو سیاست دانوں، ملک کے غداروں اور بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں طوفان بدتمیزی اُٹھائے ہوئے ہیں ٹھکانے نہیں لگائے جارہے ہیں۔ قرآن کی تعلیمات فساد فی الارض کی سزا قتل بتاتی ہے۔ اسلام ہی اس کا حل ہے۔
سندھ ہائی کورٹ میں وکلا کی جانب سے درخواستوں کی سماعت کے موقع پر ایڈیشنل آئی جی کی موجودگی میں جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خرابی پولیس میں ہے، سندھ کے سرداروں کی وجہ سے ڈاکو آزاد گھوم رہے ہیں، کیا آج تک کسی ایک سردار کے خلاف کارروائی ہوئی، کراچی کے حالات بہت خطرناک ہیں، کسی شہری کو کراچی چھوڑنے کا موقع ملے تو کوئی نہیں رہے گا۔ یاد رہے کہ 2023ء میں بھی جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس مبین لاکھو نے ریمارکس دیے تھے کہ سیاسی طور پر پولیس افسران کا تقرر حالات کی ابتری کی وجہ سے اغوا برائے تاوان ایک کاروبار بن گیا ہے اور سالانہ 2 ارب روپے کی لین دین اس مد میں ہوتی ہے، آزادانہ اور میرٹ پر تقرر اور سیاسی مداخلت سے پاک ہونا ہی اس بے امنی کا علاج ہے۔ پولیس صرف غربا کی گردن دبوچنے کے لیے ہے، معاف کرنا امام ابوحنیفہؒ کا قول صادق ہے کہ جو قاضی اپنا فیصلہ نافذ نہ کرسکے اُسے قاضی بننے کا کوئی حق نہیں تو عدالت باخبر ہے تو کارروائی کیوں نہیں، ایسا بھی ہرگز نہیں کہ عدالت قوت و اختیار نہیں رکھتی، وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کو سزا دے کر گھر بھجوا سکتی ہے، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکوا سکتی ہے تو امن وامان کے قیام کی رکاوٹ جو بیش تر سیاسی ہے کو دور کیوں نہیں کرپارہی ہے۔ بات زیادہ پرانی نہیں ہے کہ پاکستان میں 72 افراد جن میں نامور سیاست دان کی لسٹ حکومتی نسبت سے شائع ہوئی کہ یہ ڈاکوئوں کے سرپرست ہیں مگر ان کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا۔ ان ہی ایام میں آئی جی پولیس نے سکرنڈ دورے کے موقع پر راقم کے سوال کے جواب میں کہا کہ 250 افراد اس بدامنی کے ذمے دار ہیں ان کے نام گورنر سندھ کو بجھوائے ہیں ان کی بیخ کنی کی اجازت ملتے ہی اس بدامنی کا خاتمہ ہوگا مگر ایسا ہوا کہ بیخ کنی کرنے والے کی جڑ طاقتور حلقوں نے محکمہ پولیس سے اکھاڑ کر محکمہ رجسٹریشن میں گاڑ دی تو اب پھر حل کیا ہے؟
مجھے تاریخ کے اوراق پہ لکھا واقعہ ملک کی بدامنی، کوفہ کی بدامنی سے مماثلت کر گئی ہے تو علاج بھی کوفہ والا ہوگا کوفہ کی بدامنی پر وقت کے خلیفہ نے حجاج بن یوسف کو گورنر کوفہ مقرر کیا تو انہوں نے کوفہ پہنچ کر جمعہ کے دن چارج سنبھالا اور جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینے سے قبل اپنے سپاہیوں کو مسجد گھیرے میں لینے اور کسی کو باہر نہ نکلنے کا حکم دیا۔ خطبہ شروع ہوا تو شرپسندوں نے حسب عادت فقرے کسنے، کنکر مارنے شروع کیے، حجاج بن یوسف نے سخت ترین جملوں اور لہجوں سے بتادیا کہ وہ کس طبیعت کے ہیں اور کیا کچھ کر گزرنے والے ہیں۔ جمعہ کی نماز کے بعد وہ مسجد کے دروازے پر قرآن شریف لے کر بیٹھ گئے اور ہر گزرنے والے کو قرآن پہ ہاتھ رکھ کر بتانے کی ہدایت کی کہ وہ حلف دے کر اُس نے شرارت تو نہیں کی، کچھ لوگ شرارتی پکڑے گئے تو حوالہ زنداں کر کے اگلے جمعہ اُن کے سر قلم کرکے ایسا خوف کا ماحول پیدا کیا کہ پھر اُن کے دور گورنری میں کوفہ امن کا گہوارہ بن گیا۔ ایک چنگیزی حکمران کا قول ہے حکومت رعب پر اور خلافت انصاف پر چلتی ہے، یہ بات بھی قابل الذکر اور توجہ لائق ہے۔