’’آگے ٹرمپ پیچھے ژی‘‘

268

آج کے پاکستان کو درپیش صورت حال کے تناظر میں فارسی محاورے ’’پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ کا ترجمہ کیا جائے تو ’’آگے ٹرمپ پیچھے ژی‘‘ ہی بنتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ حکومت نے بہت سوں کی طرح بہت دیر سے یہ حقیقت سمجھ لی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ سونامی کو روکنا اب امریکی مقتدرہ کے بس میں نہیں رہا۔ ایسا نہ ہوتا وہ آخری وقت تک ٹرمپ کو امریکا کا عمران خان اور عمران خان کو پاکستان کا ٹرمپ قرار دینے کی ڈفلی اور راگ ہر گز نہ بجاتے نہ ہی کپیٹل ہل کی توڑ پھوڑ کو جناح ہائوس پر حملے کے عین مطابق اور ہم پلہ قرار دیتے۔ پاکستان کے سیاست دانوں پر ہی کیا موقوف امریکا کے مین اسٹریم میڈیا نے بیانیہ سازی کے چکر میں خود امریکیوں کو بھی اس معاملے میں تذبذب اور غیر یقینی کا شکار بنا رکھا تھا۔ پاکستان میں صرف ایک ہی شخص مشاہد حسین سید بہت یقین اور اعتماد کے ساتھ مہینوں پہلے سے یہ بات کہہ رہے تھے کہ ٹرمپ آرہا ہے۔ یہیں سے انہوں نے ٹرمپ کی کال آنے کی پیش گوئی کرنا بھی شروع کر دی تھی۔ کال آتی ہے یا نہیں مگر ٹرمپ تو آگیا ہے۔ ایک باخبر پاکستانی کے طور مشاہد حسین سید کی یہ بات وقتی طور پر حکومتی حلقوں کے بدن میں جھرجھری پیدا کرنے کا باعث تو بن رہی تھی مگر انہیں امریکی مقتدرہ کے زور بازو، حکمت، کاری گری اور طاقت پر حددرجہ اعتماد تھا جو ہر قیمت پر ٹرمپ کو سیاسی منظر سے مائنس کرنے کا تہیہ کرچکی تھی۔ جونہی امریکا سے یہ اشارے ملنا شروع ہوئے کہ ٹرمپ سونامی اب وائٹ ہائوس کی طرف بڑھ رہا ہے تو انہوں نے مقامی بیانیہ سازی، سیاسی ضرورت اور حفظ ِ ماتقدم کے طور پر چین کے پیچھے چھپنے کا راستہ اختیار کیا۔ مبادا کل ٹرمپ بگڑ بیٹھتے ہیں تو بتایا جاسکے کہ چین سے تعلق تعاون اور دوستی کی سزا دی جارہی ہے۔ سی پیک پر مصالحت اور مصلحت نہ کرنے پر وہ ٹرمپ کے غیظ وغضب کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس سے عمل کی دنیا میں تو کوئی فرق ہونا نہیں تھا کیونکہ حکمران ڈھائی برس قبل اپنے ہاتھ پائوں کاٹ کر امریکا کے حوالے کر چکے تھے مگر مقامی رائے عامہ میں اپنا سیاسی تاثر بہتر کرنے کے لیے اس نسخے سے شفا مل سکتی تھی۔

مشاہد حسین سید ہی کو یہ شرارت سوجھی کہ انہوں نے اپنے تھنک ٹینک میں چین اور پاکستان کے تعلقات کے موضوع پر ایک سمینار منعقد کرکے وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور چینی سفیر کو ’’یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے‘‘ کے انداز میںآمنے سامنے لا بٹھایا۔ اسی سیمینار میں اسحاق ڈار نے اس تاثر پر مبنی گفتگو کی کہ چین اس قدر صابر وشاکر ہے کہ اس کے شہری پاکستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے بھی جاتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ پاکستان میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس تاثر کو چینی صدر ژی جن پنگ کی ایک گفتگو سے ماخوذ کیا تھا۔ اس پر چینی سفیر پھٹ پڑا تھا اور اس نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ چینی صدر سے منسوب اور ماخوذ بات درست نہیں۔ چینی صدر کو اپنے شہریوں کی ہلاکتوں پر تشویش ہے اور جب تک سیکورٹی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا سی پیک کو ’’پیک ‘‘ ہی سمجھیں۔ اس سے پہلی بار چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی اُلجھن کا معاملہ عوامی سطح پر سامنے آیا۔ دنیا کو اندازہ ہوا کہ بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان سب اچھا نہیں۔ اب کم از کم حکومت یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ صدر ٹرمپ انہیں صدر ژی کی دوستی کی سزادے رہے ہیں۔ صدر ژی نے پہلے ہی یہ پیغام دے دیا ہے کہ موجودہ سیاسی بندوبست میں دونوں ملکوں کے تعلقات اچھے نہیں رہے۔

چین پرائیویٹ طور پر ڈھائی برس سے پاکستان میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کا مشور ہ دیتا رہا ہے مگر اس کی یہ آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ اب ٹرمپ نے جس انداز سے اپنی کابینہ تشکیل دی ہے اس سے عمران خان اور حکومت وسیاست سے بات آگے نکل کر پاکستانی ریاست کے معاملات تک پہنچ چکی ہے۔ بالخصوص ٹرمپ نے جس شخص کو وزیر خارجہ کے طور پر چنا ہے اس کا نام مارکو روبیو ہے۔ اسلام آباد میں خیال یہی تھا کہ قرعۂ فال ایک بار پھر آزمودہ کار سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے نام نکل آئے گا مگر ٹرمپ نے مائیک پومپیو اور برصغیر سے آبائی تعلق رکھنے والی نکی ہیلی دونوں کو مستقبل کے منظر سے مکھن سے بال کی طرح نکا ل باہر کیا۔ شاید کسی مرحلے پر یہ دونوں ٹرمپ مائنس منصوبے کے لیے دلوں میں نرم گوشہ رکھتے ہوں۔

مارکو روبیو پاکستان ہی نہیں مسلمان دنیا میں بادشاہتوں اور آمریتوں کے نظریاتی مخالف کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان کے خیالات پر مبنی کئی ویڈیو کلپس زیر گردش ہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم بعض دفعہ سمجھتے ہیں کہ ڈکٹیٹر ہمارے حق میں کام کرتا ہے تو وہ ٹھیک ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا ہوگا وہ ڈکٹیٹر طاقت پر کنٹرول رکھنے کے لیے میڈیا کو دباتا ہے اور اسے کوئی پروا نہیں ہوتی کہ یہ لوگ امریکا کے خلاف استعمال ہوں یا کسی اور کے خلاف اسے یہ فکر ہوتی ہے کہ بس اس کے خلاف کوئی بات نہ کریں۔ مصر کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں سے نائن الیون کے ایسے حملہ آور سامنے آئے جو پوش علاقوں اور خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے‘‘۔ امریکا کے نامزد وزیر خارجہ کے یہ خیالات پاکستان کے لیے ہی نہیں عرب دنیا کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہیں۔ یہ نائن الیون کے بعد امریکی اخبارات میں نیویارک ٹائمز جیسے سخت گیر اخبارات میں لکھنے والے ریڈیکل تجزیہ نگاروں کی رائے کا نچوڑ ہے۔ اسی دور میں نائن الیون کے دو تین روز بعد ہی نیویارک ٹائمز میں ایک طویل تجزیاتی مضمون شائع ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکا نے مسلم دنیا میں ازکار رفتہ او رکرم خوردہ بادشاہتوں اور آمریتوں کا بوجھ اُٹھا کر ان معاشروں کو آزاد ہوائوں اور جمہوری فضائوں سے محروم رکھا ہے۔ بادشاہتوں اور آمریتوں تلے امریکا مخالف جذبات پنپتے رہے۔ جس کا نتیجہ نائن الیون کی صورت میں برآمد ہوا جس کی منصوبہ بندی، سہولت کاری اور ہائی جیکروں کی صورت آخری ضرب میں انہی بادشاہتوں کی زیر سایہ پلنے والے ریڈیکل عرب نوجوان شامل تھے۔ مضمون نگار نے آگے چل کر لکھا تھا اب امریکا کو مزید ان کرم خوردہ بادشاہتوں کا بوجھ اُٹھانے کے بجائے مسلم دنیا میں جمہوریت کا سودا فروخت کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ایک لبرل اور ترقی یافتہ مسلمان ملک کو رول ماڈل کے طور پر منتخب کرنا چاہیے۔

مضمون نگار کی نظریں اس کے لیے ترکی پر تھیں مگر بعد میں عملی طور پر اس کے لیے عرب ملک عراق کا انتخاب ہوا۔ عراق میں جمہوریت تو نہ آئی مگر ملک کا سول اسٹرکچر اور مرکزیت برباد ہو گئی اور ملک برسوں خانہ جنگی کا شکار ہو کر رہ گیا۔ وائٹ ہائوس سے ملنے والے یہ اشارے عرب دنیا کے لیے بھی اچھے نہیں اور محمد بن سلمان بھی اس حقیقت کو بھانپ گئے ہیں۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ تک اپنے معاشروں میں فلسطینیوں کے حق میں احتجاج پر پابندیاں لگانے والے او آئی سی ملکوں کو اچانک غزہ کی بربادیوں کی یاد آگئی۔ یوں لگا کہ جیسے بگ بینگ کی آواز سن کر مسلمان حکمران نیند سے جاگ پڑے ہیں اور انہیں کسی نے جاگتے ہی یاد دلایا کہ ان کے پہلو میں غزہ نامی موت کی ایک وادی دردوکرب کی تصویر بن کر رہ گئی ہے۔ ٹرمپ کی ایک سخت گیر ٹیم کے ساتھ آمد کے ساتھ ہی چین نے کھلے بندوں کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ پاکستان میں سی پیک کے منصوبوں کو صرف اسی صورت میں آگے بڑھائے گا

جب اسے ان منصوبوں اور ان پر کام کرنے والوں کی حفاظت کے لیے اپنا سیکورٹی کا نظام تشکیل دینے کی اجازت ملے گی۔ یہ تقریباً وہی مطالبہ ہے جو گزشتہ دہائی میں امریکا کی طرف سے دہرایا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ امریکا کو پاکستان کے اندر براہ راست اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی اجازت دی جائے۔ اس کے لیے بلیک واٹر کنٹریکٹرز کے نام پر سی آئی اے نے سیکورٹی کا پورا نظام تشکیل دیا تھا بلکہ کہا جاتا تھا کہ بگرام ائر بیس میں ایک ایسی فورس بھی تیا ر کھڑی ہے جو خدانخواستہ پاکستان کی بلقانائزیشن یعنی دہشت گردوں کے ہاتھوں بکھرنے کی صورت میں اس کے ایٹمی ہتھیاروں کا کنٹرول سنبھالے گی۔

پاکستان نے یہ مشکل وقت جیسے تیسے گزار لیا تھا مگر شوق کا کوئی مول نہیں کے مصداق پھر دوبارہ اسی دام میں آنے کا فیصلہ بھی خود ہی کر لیا۔ اب ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے ہاتھوں سہمے اور ڈرے ہوئے پاکستانی حکمرانوں کے سامنے چین نے اسی سے ملتا جلتا دفتر کھول دیا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں کوئی کسی کا بے دام غلام ہوتا ہے نہ ہمہ موسمی دوست۔ یہ کچھ لو اور کچھ دو کی بے رحم دنیا ہوتی ہے۔ ٹرمپ اس بار بھی روس سے تعلقات بہتر بناتے ہوئے چین پر فوکس رکھنے کی طرف جا رہے ہیں ان کی سوشل میڈیا ٹیم رائے عامہ سے پوچھ رہی ہے کیوں نہ بل گیٹس کو چین کی ووہان لیبارٹری کو عطیہ دینے پر سزادی جائے جس کے بارے میں ٹرمپ نے الزام عائد کیا تھا کہ کورونا وائرس وہیں تخلیق ہوا ہے اور وہ اپنے پچھلے دور اقتدار میں اس کے لیے مسلسل ’’چائنیز وائرس‘‘ کی اصطلاح استعمال کرکے چینیوں کو زچ کرتے رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے گوادر اور سی پیک پر امریکا کی برداشت کا درجہ صفر پر ہی رہے گا اور چین کی طرف سے اپنا سیکورٹی نظام لانے پر اصرار پاکستان کو دو بڑی طاقتوں کے درمیان سینڈ وچ بنادے گا۔ حالات، خدشات اور واقعات کا ایک بپھرا ہو ا بگولہ سامنے رقصاں ہے مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ’’سنجیاں ہوجان گلیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘ کی بے معنی خواہش کی تکمیل کرکے اچھے دنوں کو اچھے انداز سے سیلیبریٹ کرنا ہے۔